سورة فاطر - آیت 36

وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اہل کفر (١٩) کے لئے جہنم کی آگ ہوگی، نہ انہیں ختم ہی کردیا جائے گا کہ مرجائیں، اور نہ اس کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا، ہم ہر نا شکر گذار کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ : جنت میں جانے والے خوش نصیبوں کے بعد جہنم میں جانے والے بد نصیبوں کا ذکر فرمایا، یعنی جن لوگوں نے اس کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا جو ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی اور جس کے وارث ہمارے چنے ہوئے بندے ہیں، ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا: جہنمی موت کو راحت خیال کریں گے اور اس کی تمنا کریں گے، مگر ان کی یہ تمنا کبھی پوری نہیں ہو گی۔ قرآن مجید کی کئی آیات میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ جہنمیوں پر موت نہیں آئے گی کہ وہ عذاب سے رہائی پا جائیں، نہ ہی ان کی زندگی کوئی زندگی ہو گی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ ثُمَّ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَ لَا يَحْيٰى ﴾ [ الأعلٰی : ۱۳ ] ’’پھر وہ نہ اس میں مرے گا اور نہ زندہ رہے گا۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ ابراہیم (۱۵ تا ۱۷) اور سورۂ زخرف (۷۷) ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُؤْتٰی بِالْمَوْتِ كَهَيْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ فَيُنَادِيْ مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ! فَيَشْرَئِبُّوْنَ وَ يَنْظُرُوْنَ فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا؟ فَيَقُوْلُوْنَ نَعَمْ هٰذَا الْمَوْتُ، وَ كُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، ثُمَّ يُنَادِيْ يَا أَهْلَ النَّارِ! فَيَشْرَئِبُّوْنَ وَ يَنْظُرُوْنَ، فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا؟ فَيَقُوْلُوْنَ نَعَمْ هٰذَا الْمَوْتُ، وَ كُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، فَيُذْبَحُ ثُمَّ يَقُوْلُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ! خُلُوْدٌ فَلَا مَوْتَ، وَ يَا أَهْلَ النَّارِ! خُلُوْدٌ فَلَا مَوْتَ، ثُمَّ قَرَأَ : ﴿وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ﴾ وَ هٰؤُلَاَءِ فِيْ غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْيَا ﴿ وَ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ﴾ )) [ بخاري، التفسیر، سورۃ کھیعص، باب قولہ عزوجل : ﴿و أنذرھم یوم الحسرۃ ﴾ : ۴۷۳۰ ] ’’موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا : ’’اے جنت والو!‘‘ وہ گردنیں اٹھا کر دیکھیں گے، وہ کہے گا : ’’کیا تم اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں، یہ موت ہے۔‘‘ اور ان سب نے اسے دیکھا ہو گا، پھر وہ آواز دے گا : ’’اے آگ والو!‘‘ وہ گردنیں اٹھا کر دیکھیں گے، وہ کہے گا : ’’کیا تم اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں، یہ موت ہے۔‘‘ اور ان سب نے اسے دیکھا ہو گا، پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا، پھر وہ کہے گا : ’’اے جنت والو! (اب) ہمیشگی ہے اور کوئی موت نہیں اور اے آگ والو! (اب) ہمیشگی ہے اور کوئی موت نہیں۔‘‘ پھر یہ آیت پڑھی : ﴿ وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ﴾ [ مریم : ۳۹ ] ’’اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب (ہر) کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں (یعنی دنیا دار لوگ) اور وہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ وَ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا : کفار کی ایک سزا تو یہ ہو گی کہ ان کی موت کی تمنا کبھی پوری نہیں ہو گی، اس پر مزید سزا یہ ہو گی کہ کبھی عذاب میں وقفہ نہیں ہو گا، نہ عذاب کی شدت میں کمی ہو گی، بلکہ لمحہ بہ لمحہ ان کے عذاب میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۶۱، ۱۶۲)، زخرف (۷۴)، بنی اسرائیل (۹۷) اور سورۂ نبا (۳۰)۔ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ: ہم ہر ناشکرے کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں جو ہماری نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے ایمان لانے کے بجائے کفر پر اصرار کرتا ہے۔