سورة فاطر - آیت 13

يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ رات کو دن میں داخل (١١) کرتا ہے، اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو اپنے حکم کے تابع بنا رکھا ہے، ہر ایک اپنے مقرر وقت تک چلتا رہتا ہے، وہی اللہ تمہارا رب ہے، اسی کی بادشاہی ہے، اور اس کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کی جھلی کے بھی مالک نہیں ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ ....: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۲۷)، حج (۶۱) اور سورۂ لقمان (۲۹)۔ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى : یعنی یہ سب قیامت کے دن تک چل رہے ہیں، جب قیامت آئے گی تو ان کا چلنا موقوف ہو جائے گا اور یہ نظام باقی نہیں رہے گا۔ وَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ....:’’ قِطْمِيْرٍ ‘‘ کھجور کی گٹھلی پر باریک سے چھلکے کو کہتے ہیں، یعنی جس کی صفات اوپر بیان ہوئی ہیں حقیقت میں یہ ہے تمھارا سچا پروردگار، جو اکیلا زمین و آسمان کا بادشاہ ہے اور جنھیں تم حاجت روا اور مشکل کُشا سمجھ کر پکارتے ہو وہ بے چارے بادشاہ تو کیا ہوں گے، کھجور کی گٹھلی پر باریک سی جھلی کے مالک بھی نہیں۔ بعض مفسرین نے ’’ مِنْ دُوْنِهٖ ‘‘ سے مراد بت قرار دیے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے سوا جو بھی ہے سب شامل ہیں، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے سید الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ برملا اعلان کر دیں کہ وہ نہ اپنے لیے کسی نفع یا نقصان کے مالک ہیں، نہ کسی دوسرے کے لیے، پھر کسی اور پیر فقیر کی کیا حیثیت ہے؟ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۸۸) اور سورۂ جنّ (۲۱) اس کی ایک دلیل اگلی آیت کے یہ الفاظ ہیں : ﴿ وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ﴾ [ فاطر : ۱۴ ] ’’اور قیامت کے دن وہ تمھارے شرک کا انکار کریں گے۔‘‘ ظاہر ہے قیامت کے دن ان کے شرک کا انکار بت نہیں، بلکہ وہ فرشتے، انبیاء اور صالحین کریں گے جن کے وہ بُت بناتے تھے اور جنھیں وہ پکارتے رہے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کا قول نقل فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۱۱۶)۔