وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ
اور ہم نے جب بھی کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا رسول (٢٨) بھیجا تو اس کے عیش پرستوں نے یہی کہا کہ تم جو پیغام دے کر بھیجے گئے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں
وَ مَا اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ ....: ’’تَرَفٌ‘‘ خوش حالی۔ ’’مُتْرَفُوْنَ‘‘ اسم مفعول ہے، وہ لوگ جنھیں خوش حالی عطا کی گئی۔ خوش حالی عطا فرمانے والا اللہ تعالیٰ تھا، جیسا کہ سورۂ مومنون میں فرمایا : ﴿ وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا مَا هٰذَا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ يَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ﴾ [ المؤمنون : ۳۳ ] ’’اور اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے جنھوں نے کفر کیا اورآخرت کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہم نے انھیں دنیا کی زندگی میں خوش حال رکھا تھا، کہا یہ نہیں ہے مگر تمھارے جیسا ایک بشر، جو اس میں سے کھاتا ہے جس میں سے تم کھاتے ہو اور اس میں سے پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔‘‘ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ آپ ان کی مخالفت پر مغموم نہ ہوں، آپ سے پہلے ہر نبی کی مخالفت اور اس کا مقابلہ مال و ثروت اور جاہ و حشمت والے لوگوں ہی نے کیا اور شروع میں اس کا ساتھ مستضعفین، یعنی کمزور اور غریب لوگوں ہی نے دیا۔ یہی بات ہرقل نے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں سے اس وقت کہی جب اس کے دریافت کرنے پر ابو سفیان نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے غریب اور معمولی قسم کے لوگ ہیں۔ [ دیکھیے بخاري : ۷ ] قرآن مجید میں یہ بات بہت سے مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی دعوت کی مخالفت سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خوش حال اور متکبّر لوگوں ہی نے کی ہے۔ مثلاً دیکھیے سورۂ انعام (۱۲۳)، اعراف (۶۰، ۶۶، ۷۵، ۸۸، ۹۰)، ہود (۲۷)، بنی اسرائیل (۱۶) اور سورۂ مومنون (۲۴، ۳۳ تا ۳۸، ۴۶، ۴۷)۔