يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اے اہل کتاب ! تم حق و باطل کو کیوں خلط ملط (54) کرتے ہو، اور جانتے ہوئے حق کو چھپاتے ہو
لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ:اہل کتاب کی مذہبی بدبختیوں کی طرف اشارہ ہے، اس سے پہلی آیت میں علمائے یہود کی یہ بدبختی بیان کی گئی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا پیغمبر ہونے کے دلائل جان لینے کے باوجود کفر کر رہے ہیں، اب یہاں بتایا جا رہا ہے کہ حق کو باطل کے ساتھ ملانا اور حق کو چھپانا ان کا عام شیوہ بن چکا ہے۔ پہلی آیت میں ان کی اپنی گمراہی کا بیان تھا، اس آیت میں دوسروں کو گمراہ کرنے کا ذکر ہے۔(رازی) مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۲)۔ یہ مقام عبرت ہے کہ ہمارے دور کے فرقہ پرست علماء اور تجدد زدہ حضرات بھی دنیوی اور مادی اغراض و مصالح کے پیش نظر قرآن مجید سے وہی سلوک کر رہے ہیں جو ان کے پیش رو تورات و انجیل کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل صحیح فرمایا:(( لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ )) [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بنی إسرائیل:۳۴۵۶ ] ’’تم لازماً پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلو گے۔‘‘