سورة سبأ - آیت 18

وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے ان کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت (14) ڈالی تھی، کچھ بستیاں آباد کردی تھیں، جن کے درمیان ہم نے سفر کی مسافتوں کو ایک خاص اندازے کے مطابق بنایا تھا ( اور ان سے کہا تھا کہ) ان بستیوں کے درمیان رات دن امن و امان کے ساتھ چلتے پھرتے رہو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ جَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ....: برکت والی بستیوں سے مراد شام کا علاقہ ہے۔ قرآن مجیدمیں اکثر برکت والی زمین شام کی سر زمین کو کہا گیا ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۳۷)، بنی اسرائیل (۱) اور سورۂ انبیاء (۷۱ اور ۸۱) یعنی یمن سے شام تک سڑک کے کنارے مسلسل بستیاں تھیں، جو پہاڑیوں یا اونچی جگہوں پر بنائی گئی تھیں اور ایک دوسری سے اتنی قریب تھیں کہ ایک بستی سے دوسری بستی نظر آتی تھی اور ایسے اندازے اور تناسب سے آباد تھیں کہ مسافر کو ہر منزل پر کھانا، پانی اور آرام کا موقع ملتا تھا۔ آبادیوں کے قریب ہونے اور نظر آتے رہنے کی وجہ سے نہ مسافروں کا دل گھبراتا تھا، نہ چوروں ڈاکوؤں کا خوف تھا اور نہ زاد راہ ساتھ لینے کی مشقت تھی۔ سِيْرُوْا فِيْهَا لَيَالِيَ وَ اَيَّامًا اٰمِنِيْنَ : یعنی رات دن کی جس گھڑی میں سفر کرنا چاہو کرو، نہ جان و مال کا کوئی اندیشہ، نہ راستے کے لیے سامان سفر ساتھ لینے کی کوئی ضرورت۔