أَفْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ
کیا وہ اللہ پر افترا پردازی کرتا ہے، یا اسے جنون لاحق ہوگیا ہے، بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں وہ ( اس دن) عذاب میں ہوں گے، اور آج شدید گمراہی میں پڑے ہیں
1۔ اَفْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا ....: یعنی اس کا یہ کہنا کہ ریزہ ریزہ کر دیے جانے کے بعد تم نئے سرے سے پھر زندہ کیے جاؤ گے، دو حال سے خالی نہیں، یا تو ہوش و حواس کی درستی میں وہ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ رہا ہے اور اس کی طرف نسبت کر کے وہ بات کہہ رہا ہے جو اس نے نہیں فرمائی، یا اسے جنون ہے، اس کا دماغ خراب ہے، بے سوچے سمجھے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے۔ [ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ] 2۔ بَلِ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ ....: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری عمر قریش مکہ کے سامنے گزری تھی۔ (دیکھیے یونس : ۱۶) آپ کے متعلق یہ دونوں باتیں اتنی بے کار تھیں کہ ان کی تردید کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صادق اور امین ہونا سب کے ہاں مسلّم تھا۔(دیکھیے انعام : ۳۳) جیسا کہ ابوسفیان کے اس اعتراف پر کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جھوٹ بولنے کا کوئی واقعہ معلوم نہیں، ہرقل نے کہا تھا : ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولے، مگر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے لگے۔‘‘ [ دیکھیے بخاري : ۷ ] رہی دیوانہ یا پاگل ہونے کی بات تو آپ کی عقل کا کمال دوست و دشمن سب کے سامنے تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کے منکر ہیں وہ جہالت اور نادانی سے کام لے رہے ہیں اور غوروفکر سے بات کی تہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ حق بات اور سیدھی راہ سے بہت دور نکل گئے ہیں اور اس راستے پر چل رہے ہیں جو انھیں سیدھا جہنم کے عذاب میں لے جانے والا ہے۔ الٹا سیدھی راہ پر چلنے والے کو جھوٹا یا دیوانہ بتا رہے ہیں۔