يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے میرے نبی ! آپ اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے، اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادروں کا ایک حصہ (48) اپنے اوپر لٹکا لیا کریں، یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائے، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہے
1۔ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ ....: مسلمانوں کو ایذا دینے والوں کے لیے وعید کے بیان کے بعد مسلم عورتوں کو ایذا سے بچنے کے لیے پردے کی تاکید فرمائی۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ایک سے زیادہ تھیں۔ بعض لوگ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے علاوہ دوسری بیٹیوں کو آپ کی بیٹیاں تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے کہنے کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں سے مراد امت کی عورتیں ہیں، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور آپ کی بیٹیوں کے بعد مومنوں کی عورتوں کا الگ ذکر فرمایا ہے۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں مذکور ہیں، زینب، ام کلثوم، رقیہ اور فاطمہ رضی اللہ عنھن ’’ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ ‘‘ میں مومنوں کی بیویوں کے علاوہ ان سے تعلق رکھنے والی تمام عورتیں، مثلاً ان کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بھتیجیاں اور بھانجیاں وغیرہ سب شامل ہیں۔ 2۔ ’’جَلَابِيْبُ‘‘ ’’جِلْبَابٌ‘‘ کی جمع ہے، بڑی چادر جو جسم کو ڈھانپ لے۔ ’’ مِنْ ‘‘ کا لفظ تبعیض کے لیے ہے، یعنی اپنی چادروں کا کچھ حصہ۔ ’’ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ ‘‘ ، ’’أَدْنٰي يُدْنِيْ‘‘ کا معنی قریب کرنا ہے، ’’ عَلَيْهِنَّ ‘‘ کے لفظ سے اس میں لٹکانے کا مفہوم پیدا ہو گیا۔ عرب کی عورتیں تمام جاہل معاشروں کی طرح سب لوگوں کے سامنے کھلے منہ پھرتی تھیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور ایمان والوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔‘‘ اس لٹکانے سے مراد کیا ہے؟ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل فرمایا : ’’ أَمَرَ اللّٰهُ نِسَاءَ الْمُؤْمِنِيْنَ إِذَا خَرَجْنَ مِنْ بُيُوْتِهِنَّ فِيْ حَاجَةٍ أَنْ يُّغَطِّيْنَ وُجُوْهَهُنَّ مِنْ فَوْقِ رُؤُوْسِهِنَّ بِالْجَلاَبِيْبِ، وَ يُبْدِيْنَ عَيْنًا وَاحِدَةً ‘‘ [طبري : ۲۸۸۸۰ ] ’’اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے گھر سے نکلیں تو اپنے چہرے کو اپنے سروں کے اوپر سے پڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔‘‘ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : (( لَمَّا نَزَلَتْ : ﴿ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ﴾ خَرَجَ نِسَاءَ الْأَنْصَارِ كَأَنَّ عَلٰی رُءُوْسِهِنَّ الْغِرْبَانَ مِنَ الْأَكْسِيَةِ )) [ أبو داؤد، اللباس، باب في قول اللّٰہ تعالٰی: ﴿ یدنین علیھن من جلا بیبھن ﴾ : ۴۱۰۱، و قال الألباني صحیح ] ’’جب آیت ’’ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ‘‘ نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں اس طرح نکلیں جیسے ان کے سروں پر (سیاہ) چادروں کی وجہ سے کوّے ہوں۔‘‘ 3۔ ذٰلِكَ اَدْنٰى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ : یہاں ایک سوال ہے کہ اگر اپنے آپ پر چادروں کا کچھ حصہ اس طرح لٹکایا جائے کہ صرف ایک آنکھ کھلی رہے، چہرہ نظر ہی نہ آئے تو اس طرح تو عورت کی پہچان ہو ہی نہیں سکتی، پھر یہ فرمانے کا کیا مطلب ہے کہ ’’یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔‘‘ جواب اس کا یہ ہے کہ پہچانی جائیں سے یہ مراد نہیں کہ یہ فلاں عورت ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ پردہ کرنے کی وجہ سے ان کی پہچان ہو جائے کہ یہ شریف اور باحیا عورتیں ہیں، پھر کوئی انھیں چھیڑنے کی جرأت نہیں کرے گا، نہ کسی کے دل میں انھیں اپنی طرف مائل کرنے کا لالچ پیدا ہو سکے گا۔ اس کے برعکس بے پردہ عورت کی کیا پہچان ہو سکتی ہے کہ وہ شریف ہے یا بازار میں پیش ہونے والا سامان، جسے کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے۔ پردہ اتارنے کے بعد اسے ایذا سے محفوظ رہنے کے بجائے فاسق و فاجر لوگوں کی چھیڑ چھاڑ، زبردستی اور بعض اوقات اغوا کا منتظر رہنا چاہیے۔ 4۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ چہرے کا پردہ نہیں، مگر یہ آیت ان کا رد کرتی ہے، اس کے علاوہ سورۂ نور کی آیت (۳۱ اور ۶۰) سے اور سورۂ احزاب کی آیت (۵۳ اور ۵۵) سے بھی واضح طور پر پردے کا حکم ثابت ہو رہا ہے۔ زیر تفسیر آیت کے ساتھ ایک مرتبہ ان آیات کا ترجمہ و تفسیر بھی دیکھ لیں۔ واقعۂ افک میں عائشہ رضی اللہ عنھا کا کہنا کہ صفوان نے مجھے پردے کی آیات اترنے سے پہلے دیکھا تھا، بھی چہرے کے پردے کی واضح دلیل ہے۔ 5۔ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا: ’’ غَفُوْرًا ‘‘ پردہ ڈالنے والا، ’’ رَحِيْمًا ‘‘ بے حد مہربان۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے لیے پردے کا جو حکم دیا ہے اس کی وجہ اس کی صفت مغفرت و رحمت ہے۔ وہ تم پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے اور تم پر رحم کرنا چاہتا ہے اور اس کے حکم کی تعمیل ہی سے تم اس کی پردہ پوشی اور رحمت کے حق دار بنو گے، اگر تم نے اس کی اطاعت نہ کی تو اپنی کوتاہیوں پر اس کی پردہ پوشی کی اور رحمت کی امید نہ رکھو۔