وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر کسی قصور کے ایذا (47) پہنچاتے ہیں، وہ بہتان دھرتے ہیں، اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں
1۔ وَ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا ....: یعنی انھیں بدنام کرنے کے لیے ان کی طرف ایسے کاموں کی نسبت کرتے ہیں جو انھوں نے کیے ہی نہیں۔ یہ بہتان ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : ’’اے اللہ کے رسول! غیبت کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ((’’تمھارا اپنے بھائی کا ذکر اس چیز کے ساتھ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔‘‘ کہا گیا : ’’یہ بتائیں اگر میرے بھائی میں وہ چیز موجود ہو جو میں کہہ رہا ہوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَإِنْ كَانَ فِيْهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ وَ إِنْ لَّمْ يَكُنْ فِيْهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدْ بَهَتَّهُ )) [ أبوداؤد، الأدب، باب في الغیبۃ : ۴۸۷۴، و قال الألباني صحیح ] ’’اگر اس میں وہ چیز موجود ہے جو تم کہہ رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ چیز نہیں تو تم نے اس پر بہتان باندھا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لیتے وقت شرک، چوری، زنا اور قتل نہ کرنے کا عہد لینے کے ساتھ بہتان نہ باندھنے کا بھی عہد لیتے تھے۔ دیکھیے سورۂ ممتحنہ (۱۲)۔ سعید بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ مِنْ أَرْبَی الرِّبَا الْاِسْتِطَالَةَ فِيْ عِرْضِ الْمُسْلِمِ بِغَيْرِ حَقٍّ )) [ أبوداؤد، الأدب، باب في الغیبۃ : ۴۸۷۶، و قال الألباني صحیح ] ’’سود کی سب سے بڑی قسموں میں سے ایک کسی مسلمان کی عزت پر دست درازی یا زبان درازی ہے۔‘‘ ابن کثیر نے فرمایا : ’’آیت : ﴿ وَ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ....﴾ اس وعید میں سب سے پہلے تو کفار داخل ہیں، پھر رافضی شیعہ جو صحابہ کے نقص بیان کرتے اور ان کے ذمے وہ عیب لگاتے ہیں جن سے انھیں اللہ تعالیٰ نے بری قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جو تعریف فرمائی یہ صاف اس کے الٹ کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصار کی تعریف کی اور ان کے متعلق بتایا کہ وہ ان سے راضی ہو گیا اور یہ جاہل اور غبی انھیں برا بھلا کہتے، ان کے نقص نکالتے اور ان کے ذمے وہ چیزیں لگاتے ہیں جو حقیقت میں انھوں نے کبھی کی ہی نہیں، یہ الٹے دلوں والے ہیں کہ جو لوگ تعریف کے لائق ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں اور جو مذمت کے لائق ہیں ان کی تعریف کرتے ہیں۔ ‘‘ (ابن کثیر) 2۔ قاسمی نے فرمایا : ’’اکلیل میں ہے کہ اس آیت سے مسلمان کو ایذا دینا حرام ثابت ہوا۔ ہاں کسی شرعی وجہ سے ہو تو الگ بات ہے، جیسے کسی گناہ کی سزا اور اس میں وہ تمام چیزیں آ جاتی ہیں جو مسلمان کو ایذا کی وجہ سے حرام کی گئی ہیں، مثلاً دوسرے کی بیع پر بیع یا اس کے خِطبہ (منگنی) پر خِطبہ اور امام شافعی نے صراحت فرمائی کہ کسی شخص کے آگے سے کھانا جب اسے اس سے تکلیف ہوتی ہو، حرام ہے۔‘‘