مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ۖ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا
نبی کے لئے اس کام کو کر گذرنے میں کوئی حرج نہیں (31) جسے اللہ نے ان کے لئے ضروری قرار دیا ہے، گذشتہ انبیاء کے لئے بھی اللہ کی یہی سنت رہی ہے، اور اللہ کا ہر فیصلہ طے شدہ ہے
1۔ مَا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ ....: یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جو کام طے کر دیا اور اس کا حکم دے دیا اس کے ادا کرنے میں اس پر کوئی تنگی نہ پہلے تھی، نہ اب ہے، نہ آئندہ ہونی چاہیے۔ ’’ كَانَ ‘‘ نفی کے استمرار کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’کبھی کوئی تنگی نہیں۔‘‘ اس لیے اسے وہ بات بتانے میں یا اس پر عمل کرنے میں کسی طعن و تشنیع یا ملامت کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرمایا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں، اسی طرح یہ بھی طے فرما دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبنّٰی کی مطلقہ سے نکاح کریں گے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے اظہار یا اس پر عمل کے سلسلے میں منافقین یا یہود کے طعن کی پروا نہیں کرنی چاہیے تھی۔ یہ وہی بات ہے جو سدی اور زین العابدین نے فرمائی ہے۔ اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے اپنے متبنّٰی کی مطلقہ سے نکاح محض مباح ہے، مگر بہت سی مصلحتوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے طے کرنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھا۔ 2۔ سُنَّةَ اللّٰهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ: لفظ ’’ سُنَّةَ ‘‘ پر نصب یا تو اس لیے ہے کہ اس سے پہلے حرف جر ’’کاف‘‘ محذوف ہے، جس کے حذف ہونے کی وجہ سے یہ منصوب ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو کچھ طے فرمایا اسے ادا کرنے میں اس پر اسی طرح کوئی حرج نہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا پہلے انبیاء کے بارے میں طریقہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے جو طے کر دیتا وہ اس کی ادائیگی میں کوئی تنگی محسوس نہیں کرتے تھے۔ یا یہ فعل محذوف کا مصدر ہے، یعنی ’’سَنَّ اللّٰهُ هٰذَا سُنَّةً فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ‘‘ مطلب ایک ہی ہے کہ گزشتہ انبیاء بھی ایسے کاموں کے کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے تھے جو اللہ کی طرف سے ان پر فرض کر دیے جاتے تھے، چاہے ان کی اقوام اور زمانے کے رسم و رواج ان کے خلاف ہوتے تھے۔ 3۔ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرًا : یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام خاص طور پر حکمت اور مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں، دنیاوی حکمرانوں کی طرح وقتی اور فوری ضرورت پر مشتمل نہیں ہوتے، اسی طرح ان کا وقت بھی مقرر ہوتا ہے جس کے مطابق وہ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔