سورة الأحزاب - آیت 23

مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

مومنوں میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان (٢٠) کو سچ کر دکھایا، پس ان میں سے بعض نے اپنی نذر پوری کردی، اور بعض وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کے موقف میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آئی ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ : پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کا دعویٰ کرنے والے کچھ لوگوں کا ذکر فرمایا، جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا اور بزدلی اور نامردی سے میدان سے بھاگ گئے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ وَ كَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَسْـُٔوْلًا ﴾ [ الأحزاب : ۱۵ ] ’’حالانکہ بلاشبہ یقیناً اس سے پہلے انھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ کا عہد ہمیشہ پوچھا جانے والا ہے۔‘‘ اب ان لوگوں پر چوٹ کے لیے ان ایمان والوں کا ذکر ہوتا ہے جو فی الواقع مرد تھے اور جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا معاہدہ پورا کر دیا۔ اس آیت میں ان تمام مخلص مسلمانوں کی تعریف ہے جو اپنی جان و مال کی پروا نہ کرتے ہوئے اتنے مشکل حالات اور اتنے کثیر دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہے۔ ان میں سب سے آگے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جو کسی جنگ اور کسی موقع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے نہیں رہے اور جنھوں نے اپنا جان و مال سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا تھا، پھرعمر، عثمان، علی اور درجہ بدرجہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں۔ اس معاہدے سے مراد وہ معاہدہ ہے جو ایمان لانے کے ساتھ ہی مومن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خود بخود ہو جاتا ہے، اس کا ذکر اس آیت میں ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَ يُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ وَ الْقُرْاٰنِ وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا۠ بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ﴾ [ التوبۃ : ۱۱۱ ] ’’بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوب خوش ہو جاؤ جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ ....: ’’نَحْبٌ‘‘ کا معنی عہد، نذر اور موت ہے، یہاں ’’نَحْبٌ‘‘ سے مراد ایسا عہد ہے جو نذر کی طرح موت تک کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جنھوں نے شہادت پا کر وہ نذر پوری کر دی کہ مرتے دم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور کچھ اس انتظار میں ہیں اور انھوں نے اپنے عہد میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی۔ اس آیت کی تفسیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جنگ خندق سے پہلے جنگ بدر اور اُحد میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس آیت کا مصداق قرار دیا ہے، مثلاً حمزہ، مصعب بن عمیر، عبداللہ بن جحش، سعد بن ربیع اور انس بن نضر رضی اللہ عنھم وغیرہ۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’میرے چچا (انس بن نضر رضی اللہ عنہ ) جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تو یہ بات ان پر شاق گزری۔ انھوں نے کہا : ’’پہلی لڑائی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوئے، میں اس سے غائب رہا، اب اگر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہونے کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔‘‘ اس کے سوا وہ کچھ کہنے سے ڈرے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احد کی لڑائی میں شریک ہوئے تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے سامنے آئے۔ انس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : ’’ابو عمرو! کہاں جا رہے ہو؟‘‘ پھر کہنے لگے: ’’واہ واہ! مجھے تو احد کی طرف سے جنت کی خوشبو آ رہی ہے۔‘‘ پھر وہ لڑے یہاں تک کہ قتل ہو گئے۔ (لڑائی کے بعد دیکھا گیا) تو ان کے بدن پر اسی (۸۰) سے زائد تلوار، نیزے اور تیر کے زخم تھے۔ ان کی بہن اور میری پھوپھی رُبیع بنت نضر رضی اللہ عنھا نے کہا : ’’میں نے اپنے بھائی کو نہیں پہچانا مگر ان کی انگلیوں کی پوریں دیکھ کر۔‘‘ اور یہ آیت نازل ہوئی : ﴿مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا﴾ [الأحزاب : ۲۳ ] انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’صحابہ رضی اللہ عنھم سمجھتے تھے کہ یہ آیت ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘ [ مسلم، الإمارۃ، باب ثبوت الجنۃ للشہید : ۱۹۰۳ ] معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : (( طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَی نَحْبَهُ )) [ ترمذي، التفسیر، باب و من سورۃ الأحزاب : ۳۲۰۲ ] ’’طلحہ( رضی اللہ عنہ ) ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی نذر پوری کر چکے۔‘‘ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں انھیں شہید قرار دے دیا۔ قیس بن حازم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے طلحہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دیکھا کہ وہ شل تھا، جس کے ساتھ انھوں نے احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا تھا۔ [ بخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ذکر طلحۃ بن عبید اللّٰہ: ۳۷۲۴ ] وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ : اس سے مراد وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں جو منتظر تھے کہ کب کوئی موقع ملتا ہے جس میں وہ جان کی قربانی پیش کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنا کیا ہوا عہد پورا کریں۔ ان کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ عہد کے سچے صرف وہی ہیں جو شہید ہو چکے، بلکہ ’’إِحْدَي الْحُسْنَيَيْنِ‘‘ (فتح یا شہادت) کا ہر طالب اس کا مصداق ہے۔ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا : منافقین نے تو اپنا عہد بدل ڈالا، لیکن یہ سچے مومن اپنے عہد پر پوری طرح قائم رہے۔