سورة الأحزاب - آیت 19

أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہ لوگ تم مسلمانوں کا ساتھ دینے میں بڑے بخیل (١٦) ہیں اور جب دشمنوں کا خوف لاحق ہوتا ہے تو آپ ان کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھوم رہی ہوتی ہیں اس آدمی کی طرح جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو پھر جب خطرہ ٹل جاتا ہے تو مال غنیمت کے بڑے ہی حریض بن کر اپنی تیز زبانوں کا تمہیں نشانہ بناتے ہیں یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں تھے اسی لئے اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردیئے اور ایسا کرنا اللہ کے لئے بڑا آسان تھا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَشِحَّةً عَلَيْكُمْ فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ ....: ’’ اَشِحَّةً ‘‘ ’’شَحِيْحٌ‘‘ کی جمع ہے، سخت حرص اور بخل کے مجموعے کو ’’اَلشُّحُّ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’حِدَادٍ ‘‘ جمع ہے ’’حَدِيْدٌ‘‘ کی، تیز۔ ’’ سَلَقُوْكُمْ ‘‘ ’’سَلَقَ يَسْلُقُ‘‘ (ن) ’’سَلَقَهُ بِالسَّوْطِ‘‘ یعنی اس نے اسے کوڑے سے اتنا مارا کہ کھال اتار دی۔ ’’سَلَقَ اللَّحْمَ عَنِ الْعَظْمِ‘‘ ہڈی سے گوشت اتار دیا۔ جب کوئی کسی کو بہت سخت بات کہے تو کہتے ہیں : ’’سَلَقَهُ بِالْكَلَامِ۔‘‘ ’’ الْخَيْرِ ‘‘ سے مراد مال غنیمت ہے۔ مولانا محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ نے اس مقام پر تفسیر ابن کثیر کا جو اردو ترجمہ کیا ہے وہ بہت پر لطف ہے، لکھتے ہیں : ’’یہ بڑے بخیل ہیں، نہ ان سے تمھیں کوئی مدد پہنچے، نہ ان کے دل میں تمھاری کوئی ہمددری، نہ مال غنیمت میں تمھارے حصے پر یہ خوش۔ خوف کے وقت تو ان نامردوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں، آنکھیں چھاچھ پانی ہو جاتی ہیں، مایوسانہ نگاہوں سے تکنے لگتے ہیں، لیکن خوف دور ہوا کہ انھوں نے لمبی لمبی زبانیں نکال ڈالیں اور بڑھے چڑھے دعوے کرنے لگے اور شجاعت و مردمی کا دم بھرنے لگے اور مال غنیمت پر بے طرح گرنے لگے۔ ہمیں دو، ہمیں دو کا غل مچا دیتے ہیں، ہم آپ کے ساتھی ہیں، ہم نے جنگی خدمات انجام دی ہیں، ہمارا حصہ ہے اور جنگ کے وقت صورتیں بھی نہیں دکھاتے، بھاگتوں کے آگے اور لڑتوں کے پیچھے رہا کرتے ہیں۔ دونوں عیب جس میں جمع ہوں اس جیسا بے خیر انسان کون ہو گا؟ امن کے وقت عیاری، بد خلقی، بد زبانی اور لڑائی کے وقت نامردی، روباہ بازی اور زنانہ پن۔ لڑائی کے وقت حائضہ عورتوں کی طرح الگ اور یکسو اور مال لینے کے وقت گدھوں کی طرح ڈھینچو ڈھینچو۔ اللہ فرماتا ہے، بات یہ ہے کہ ان کے دل شروع ہی سے ایمان سے خالی ہیں، اس لیے ان کے اعمال بھی اکارت ہیں۔ اللہ پر یہ آسان ہے۔‘‘