سورة السجدة - آیت 10

وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم زمین میں غائب ہوجائیں گے تو از سر نو پیدا (٨) کئے جائیں گے، بلکہ یہ کفار اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قَالُوْا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِي الْاَرْضِ....: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے حق ہونے اور توحید اور اس کے چند دلائل بیان کرنے کے بعد اب اسلام کے تیسرے بنیادی عقیدے قیامت اور اس پر کفار کے اعتراض اور اس کے جواب کا ذکر ہوتا ہے۔ ’’ وَ قَالُوْا ‘‘ میں ’’واؤ‘‘ کے ساتھ ان کے اس قول پر عطف ہے جو پہلی آیات سے ظاہر ہو رہا ہے، گویا کلام یوں ہو گا: ’’قَالُوْا مُحَمَّدٌ لَيْسَ بِرَسُوْلٍ وَالإِلٰهُ لَيْسَ بِوَاحِدٍ وَقَالُوْا ءَ إِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ…‘‘ یعنی انھوں نے کہا کہ محمد رسول نہیں ہے اور معبود ایک نہیں ہے اور انھوں نے کہا کہ کیا جب ہم زمین میں گم ہو گئے…۔‘‘ زمخشری اور طبری نے فرمایا : ’’ ضَلَّ الْمَاءُ فِي اللَّبَنِ ‘‘ اس وقت کہا جاتا ہے جب پانی دودھ میں اچھی طرح مل جائے اور غائب ہو جائے۔ یعنی کیا جب ہم مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے تو کیا واقعی ہم ایک نئی پیدائش میں زندہ کر دیے جائیں گے؟ ہمزہ استفہام کے بعد پھر ہمزہ استفہام دوسری زندگی پر تعجب اور اس سے انکار کے لیے ہے، یعنی یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ بَلْ هُمْ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ كٰفِرُوْنَ : اس سے پہلے انسان کی مٹی اور پھر نطفے سے پیدائش کا ذکر کرنے کے بعد کفار کے اس اعتراض کے جواب کی ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ ہم مٹی میں مٹی ہو گئے تو دوبارہ کیسے پیدا ہوں گے، جواب ظاہر تھا کہ جس طرح پہلی مرتبہ اس مٹی سے پیدا ہوئے جب تمھارا نام و نشان نہ تھا، اب اسی مٹی میں مل گئے تو دوبارہ کیوں پیدا نہیں ہو سکتے۔ دیکھیے سورۂ یٰس (۷۹ تا ۸۱ اور ۱۲) اس لیے فرمایا، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات تسلیم نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ وہ اپنی خواہش پرستی اور فسق و فجور کو چھوڑنا نہیں چاہتے، جو انھیں رب تعالیٰ کی ملاقات تسلیم کرنے کے بعد چھوڑنا پڑیں گے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَا اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ (1) وَ لَا اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ (2) اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ (3) بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰى اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ (4) بَلْ يُرِيْدُ الْاِنْسَانُ لِيَفْجُرَ اَمَامَهٗ ﴾ [ القیامۃ : ۱ تا ۵ ] ’’نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں! اور نہیں، میں بہت ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں! کیا انسان گمان کرتا ہے کہ ہم کبھی اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے۔ کیوں نہیں؟ (ہم انھیں اکٹھا کریں گے) اس حال میں کہ ہم قادر ہیں کہ اس (کی انگلیوں) کے پورے درست کر (کے بنا) دیں۔ بلکہ انسان چاہتا ہے کہ اپنے آگے (آنے والے دنوں میں بھی) نافرمانی کرتا رہے۔‘‘