وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
اور لوگوں میں کوئی ایسا ہوتا ہے جو اللہ سے غافل (٣) کرنے والی بات خرید کر لاتا ہے تاکہ بغیر سمجھے بوجھے اللہ کے بندوں کو اس کی راہ سے بھٹکائے، اور اس راہ کا مذاق اڑائے، ایسے لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے
1۔ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ....: محسنین کے اوصاف اور ان کے حسنِ انجام کے ذکر کے بعد ان بدنصیبوں کا ذکر فرمایا جن کے لیے ’’ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ ‘‘ یعنی ذلیل کرنے والا عذاب تیار ہے۔ ’’ لَهْوَ ‘‘ کا لفظی معنی ’’غافل کر دینا‘‘ ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَا اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ﴾ [ المنافقون : ۹ ] ’’تمھارے اموال اور تمھاری اولاد تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔‘‘ ’’ لَهْوَ ‘‘ ہر اس بات یا کام کو کہتے ہیں جو انسان کو اس کے مقصد کی چیز سے غافل کر دے۔ شیخ عبدالرحمان السعدی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ وَ مِنَ النَّاسِ ‘‘ لوگوں میں سے کوئی ایسا بد نصیب اور بے توفیق بھی ہے، ’’ مَنْ يَّشْتَرِيْ ‘‘ جو اس طرح رغبت رکھتا اور پسند کرتا ہے جیسے قیمت خرچ کر کے حاصل کرنے والا پسند کرتا ہے، ’’ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ‘‘ ان باتوں کو جو دلوں کو غافل کر دینے والی اور عظیم مقصد سے روک دینے والی ہوتی ہیں۔ چنانچہ اس میں ہر حرام کلام، ہر باطل اور ایسے اقوال پر مشتمل ہر ہذیان داخل ہے جو کفر، فسق اور معصیت کی رغبت پیدا کرے، وہ اقوال حق کو رد کرنے والے لوگوں کے ہوں، جو باطل کے ساتھ بحث کر کے حق کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، غیبت، چغلی، جھوٹ اور گالی گلوچ کی صورت میں ہوں یا گانے بجانے، شیطان کے باجوں اور غافل کر دینے والی داستانوں اور افسانوں کی صورت میں ہوں، جن کا نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہو نہ آخرت میں۔ تو لوگوں کی یہ قسم وہ ہے جو ہدایت والی بات چھوڑ کر ’’ لَهْوَ ‘‘ والی بات خریدتی ہے۔‘‘ 2۔ میں نے شیخ عبد الرحمن السعدی کا کلام اس لیے نقل کیا ہے کہ عام طور پر اس آیت میں ’’ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ‘‘ سے مراد صرف گانا بجانا لیا جاتا ہے، جب کہ آیت کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے، اگرچہ حرام غنا (ناجائز گانا) بھی اس میں شامل ہے۔ طبری میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو حسن سند کے ساتھ ثابت ہے کہ انھوں نے قسم کھا کر فرمایا کہ اس سے مراد غنا (گانا) ہے، تو یہ ’’ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ‘‘ کی ایک جزئی کا بیان ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اس کا مصداق ایسے گانے بجانے والے ہوں گے جو دین سے روکنے والے، اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق بنانے والے اور انھیں سن کر تکبر سے منہ پھیرنے والے ہوں، کیونکہ ان اوصاف کی ان آیات میں صراحت ہے، اور یہ اوصاف کفار کے ہیں مسلمانوں کے نہیں اور انھی کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ مسلمان کو ہونے والا عذاب تو اسے گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہو گا۔ البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلمان کہلانے والے لوگ جو حرام عشقیہ گانے بجانے کو اپنا پیشہ یا شغل بنا لیتے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں بدترین نفاق پیدا ہو جاتا ہے اور اللہ کی آیات کو سن کر ان کے ساتھ ان کا رویہ بھی بعینہٖ وہی ہوتا ہے جو ان آیات میں مذکور ہے۔ یہ لوگ اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے لیے مولوی کا مذاق اڑاتے اور اسے گالی دیتے ہیں، جب کہ ظاہر ہے کہ مولوی بے چارے کا قصور یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات سناتا ہے۔ ایسی صورت میں صرف نام کے مسلمان ہونے کا اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ اللہ کی آیات کے انکار، ان سے استکبار اور ان کو مذاق بنانے کے ساتھ مسلمانی کے دعوے پر اصرار قیامت کے دن ان کے کسی کام نہ آئے گا۔ افسوس! اس وقت یہ بیماری بری طرح امتِ مسلمہ میں پھیل چکی ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، موبائل فون، انٹرنیٹ، غرض ہر ذریعے سے کفار اور ان کے نام نہاد مسلم گماشتوں نے اسے اس قدر پھیلا دیا ہے کہ کم ہی کوئی خوش نصیب اس سے بچا ہو گا۔ حالانکہ دین کے کمال و زوال کے علاوہ دنیوی عروج و زوال میں بھی اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اقبال نے چند لفظو ں میں اس کا نقشہ کھینچا ہے: میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر کوئی شخص اگر حرام گانے بجانے کا عمل گناہ سمجھ کر کرے، اس پر نادم ہو تو پھر بھی معافی کی امید ہے، مگر جب کوئی قوم فنون لطیفہ یا روح کی غذا کا نام دے کر اسے حلال ہی کرلے، تو اس کے لیے اللہ کے عذاب کے کوڑے سے بچنا بہت ہی مشکل ہے۔ ابو عامر یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَيَكُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِيْ أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ وَالْحَرِيْرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ ، وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلٰی جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوْحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَّهُمْ، يَأْتِيْهِمْ، يَعْنِي الْفَقِيْرَ، لِحَاجَةٍ فَيَقُوْلُوْا ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا فَيُبَيِّتُهُمُ اللّٰهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ ، وَيَمْسَخُ آخَرِيْنَ قِرَدَةً وَخَنَازِيْرَ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ )) [ بخاري، الأشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر....: ۵۵۹۰ ] ’’میری امت میں کئی لوگ ہوں گے جو شرم گاہ (زنا) اور ریشم اور شراب اور باجوں کو حلال کر لیں گے اور کئی لوگ ایک پہاڑ کے پہلو میں اتریں گے، ان کے چرواہے شام کو ان کے چرنے والے مویشی لایا کریں گے، ان کے پاس فقیر اپنی حاجت کے لیے آئے گا، وہ کہیں گے کل آنا۔ تورات ہی کو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب بھیجے گا اور وہ پہاڑ ان پر گرا دے گا اور کئی دوسروں کی شکلیں قیامت تک کے لیے بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل دے گا۔‘‘ ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِّنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ يُسَمُّوْنَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا، يُعْزَفُ عَلٰی رُؤُوْسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ يَخْسِفُ اللّٰهُ بِهِمُ الْأَرْضَ وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيْرَ )) [ ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات : ۴۰۲۰، و قال الألباني صحیح ] ’’میری امت کے کچھ لوگ شراب پییں گے، اس کا نام اصل نام کے بجائے اور رکھ لیں گے، ان کے سامنے باجے بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی۔ اللہ تعالیٰ انھیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔‘‘