وَمِنْ آيَاتِهِ أَن يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہواؤں (٣١) کو بارش کی خوشخبری دینے کے لئے بھیجتا ہے اور تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت کا مزا چکھائے اور تاکہ کشتیاں (سمندر میں) اس کے حکم سے چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور شاید کہ تم اس کا شکر ادا کرو
وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ ....: بروبحر میں فساد کا باعث شرک بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل کے طور پر چند چیزیں ذکر فرمائیں جن کا سب لوگ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں بھی ’’إِرْسَالُ الرِّيَاحِ‘‘ کے الفاظ مذکور ہوں (رِيْحٌ کی جمع کے صیغے کے ساتھ) ان سے مراد خوش گوار ہوائیں ہوتی ہیں۔ اس آیت میں دو قسم کی خوش گوار ہواؤں کا اور ان کے فوائد کا ذکر فرمایا، ایک رحمت کی بارش کی خوش خبری دینے والی، جس سے گردوغبار اور فضا میں پھیلی ہوئی زہر ناکی ختم ہوتی ہے، مردہ زمین سیراب ہوتی ہے، طرح طرح کی فصلیں، پودے اور درخت پیدا ہوتے ہیں اور تمام جان داروں کی بنیادی ضرورت پانی مہیا ہوتا ہے۔ غرض بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ دوسری وہ موافق ہوائیں جو کشتیوں اور جہازوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ پہلے زمانے میں تو رواج ہی بادبانی کشتیوں کا تھا، جن کے چلنے کا زیادہ تر انحصار موافق ہواؤں پر ہوتا تھا۔ آج کل انجن سے چلنے والی کشتیوں اور جہازوں کا دور ہے، پھر بھی موافق اور مخالف ہواؤں کا ان کشتیوں اور جہازوں پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ فرمایا، یہ کشتیاں جو موافق ہواؤں کے سہارے چلتی ہیں ان کے ذریعے سے تم اللہ کا فضل تلاش کرتے ہو کہ وہ طلبِ علم، تجارت اور دوسری ضروریات کے لیے سفر کا آسان اور سستا ذریعہ بنتی ہیں۔ پھر تم انھی کشتیوں پر اپنا ہزاروں لاکھوں من تجارتی سامان لے جا کر خوب نفع کماتے ہو اور انھی جہازوں پر ملکوں کو فتح کرتے ہو۔ ایک علاقے میں پیدا ہونے والی چیزیں صرف وہاں تک محدود نہیں رہتیں بلکہ تمام دنیا کے لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہواؤں کے بھیجنے میں یہ تمام فوائد بھی ہیں اور یہ بھی کہ تم ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو اور اس کی وحدانیت مان کر اس اکیلے کی عبادت کرو۔