سورة الروم - آیت 22

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (١٢) ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف ہے، بے شک اس میں علم والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ : یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی قدرت کاملہ اور تمھیں دوبارہ زندہ کرنے پر دلالت کرنے والی بے شمار نشانیوں میں سے ایک نشانی جو بہت سی نشانیوں پر مشتمل ہے، آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے، جس کے مقابلے میں تمھیں پہلی یا دوسری دفعہ پیدا کرنا بالکل ہی معمولی بات ہے۔ لاکھوں کروڑوں سال سے چلا آنے والا زمین اور آسمانوں کا نظام اور ان میں موجود سورج چاند اور بے شمار وسیع و عریض سیاروں پر مشتمل کہکشاؤں کا سلسلہ جو دن بدن وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے (دیکھیے ذاریات : ۴۷) رب تعالیٰ کی بے پایاں قدرتوں کی واضح نشانی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ﴾ [ المؤمن : ۵۷ ] ’’یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اگر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور نے پیدا کیا ہے، یا کسی اور کا اس میں کوئی حصہ ہے، یا کم از کم اسے پیدا کرنے کا کوئی دعوے دار ہی ہے تو سامنے لاؤ۔ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَ اَلْوَانِكُمْ : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی کائنات میں پایا جانے والا تنوع ہے کہ اس نے جو چیز پیدا کی وہ دوسری چیز سے الگ پیدا کی۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس تنوع میں سے صرف دو چیزیں ذکر فرمائی ہیں، ایک انسانوں کی زبانوں کا مختلف ہونا، دوسرا ان کے رنگوں کا مختلف ہونا۔ ایک مٹی اور ایک پانی سے پیدا ہونے والے انسانوں کی زبانیں مختلف ہیں۔ عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، جاپانی، ترکی، حبشی، چینی، روسی، فرانسیسی، جرمنی، سپینی، غرض ہر قوم کی الگ زبان ہے، پھر ہر زبان کی بے شمار ذیلی زبانیں ہیں۔ ان ذیلی زبانوں کے لہجے اور بعض الفاظ ہر چند میل کے فاصلے پر مختلف ہو جاتے ہیں۔ پھر بولتے وقت ایک ہی زبان مثلاً عربی یا انگلش میں بات کرتے ہوئے کسی ایک شخص کا لہجہ، آواز، ادائیگی، تیزی یا آہستگی، نرمی یا سختی، شیرینی یا تلخی دوسرے شخص سے نہیں ملتی، حتیٰ کہ آدم علیہ السلام سے لے کر آخری انسان تک ہر شخص جب بولتا ہے تو اس کا تکلم صرف اسی کو عطا ہوا ہے، جس سے وہ پوری بنی نوع انسان میں دوسروں سے ممتاز ہے۔ اسے جاننے والا شخص پردے کے پیچھے اس کی بات سن کر پہچان لے گا کہ فلاں شخص بول رہا ہے۔ کمپیوٹر کی ایجاد سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی یہ عجیب نشانی مزید نمایاں ہوگئی ہے کہ اسے کسی شخص کا تکلم دے دیا جائے، تو وہ کروڑوں اربوں انسانوں میں سے جدا کر دے گا۔ اسی طرح انسانوں کے رنگوں کا مختلف ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانی ہے کہ ایک ہی اصل سے پیدا ہونے والے انسانوں میں کوئی سفید ہے، کوئی گندمی، کوئی سیاہ، کوئی سرخ، کوئی زرد اور کوئی ان کے درمیان۔ پھر کمال یہ ہے کہ بظاہر ایک ہی رنگ، مثلاً سیاہ رنگ والے ایک انسان کا رنگ دوسرے سیاہ فام انسان کے رنگ سے نہیں ملتا۔ اللہ تعالیٰ نے رنگ میں اتنی قسمیں رکھ دی ہیں کہ ہر سیاہ کا رنگ دوسرے سیاہ کے رنگ سے اور ہر سفید کا رنگ دوسرے سفید کے رنگ سے مختلف ہے۔ کسی شخص کی آنکھوں کی پتلی کی رنگت اور ساخت دوسرے شخص کی آنکھ کی رنگت اور ساخت سے نہیں ملتی۔ کسی ایک شخص کے بالوں کا سیاہ یا سرخ یا سنہری یا سفید رنگ دوسرے کے سیاہ یا سرخ یا سنہری یا سفید رنگ سے نہیں ملتا۔ کسی شخص کی جسمانی ساخت اور اس کے ہاتھ پاؤں کی لکیریں دوسرے شخص سے نہیں ملتیں، جب کہ دیکھنے میں سب انسان ہیں۔ تخلیق کا یہ باریک ترین اور عظیم ترین سلسلہ کیا اس بات کی واضح دلیل نہیں کہ یہ سب کچھ ایک رب قدیر کی قدرت کا شاہکار ہے؟ جس نے جو چاہا پیدا کر دیا، جو پیدا کیا خوب صورت پیدا کیا اور بے مثال اور لاجواب پیدا کیا۔ عقل سے کتنے خالی ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ خود بخود ہو گیا، یا کہتے ہیں کہ دو خالقوں یا مالکوں کی موجودگی میں یہ نظام چل رہا ہے، یا کہتے ہیں کہ اتنی عظیم قدرتوں کا مالک مٹی ہو جانے کے بعد انسانوں کو دوبارہ کیسے زندہ کرے گا!؟ پھر تنوع کے اس سلسلے کو ذرا پھیلا کر دیکھیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ فِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ﴾ [الرعد : ۴ ] ’’اور زمین میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے مختلف ٹکڑے ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھیتی اور کھجور کے درخت کئی تنوں والے اور ایک تنے والے، جنھیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور ہم ان میں سے بعض کو پھل میں بعض پر فوقیت دیتے ہیں، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔‘‘ زمین سے پیدا ہونے والی ہر جنس، حیوانات ہوں یا نباتات یا جمادات، ان کی ہر قسم دوسری قسم سے جدا ہے، مثلاً گائے بکری سے جدا ہے، آم کا درخت جامن سے جدا ہے، گندم جو سے الگ ہے، لوہا تانبے سے الگ ہے۔ پھر لامحدود تنوع دیکھیے کہ ہر درخت کا ہر پتا اسی درخت کے دوسرے پتے سے الگ ہے۔ ذرا اس کی لکیروں پر غور کرو، ہر ایک کی لکیریں دوسرے کی لکیروں سے الگ ہیں۔ دیکھنے میں تمام درخت اور تمام پودے سبز ہیں، مگر ہر ایک کو دوسرے سے الگ سبز رنگ عطا ہوا ہے۔ صرف درخت ہی نہیں چرندوں، پرندوں، درندوں اور آبی جانوروں میں سے ہر ایک کا یہی حال ہے۔ رنگوں کا یہ اختلاف ہی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور اس کی قدرت کی کافی دلیل ہے۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْعٰلِمِيْنَ : یعنی آسمان و زمین کی پیدائش اور زبانوں اور رنگوں کے اختلاف سے اللہ تعالیٰ کی اور اس کی قدرتوں کی پہچان ہر ایرے غیرے کا کام نہیں، ان نشانیوں کی پہچان علم والوں کا کام ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَ مَا يَعْقِلُهَا اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ ﴾ [ العنکبوت : ۴۳ ] ’’اور یہ مثالیں ہیں جو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور انھیں صرف جاننے والے ہی سمجھتے ہیں۔‘‘ رنگوں کے اختلاف سے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی معرفت اور اس کی خشیت صرف علماء کا حصہ ہونا دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجْنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَا وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّ حُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَ غَرَابِيْبُ سُوْدٌ (47) وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ ﴾ [ فاطر : ۲۷، ۲۸ ] ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ کئی پھل نکالے، جن کے رنگ مختلف ہیں اور پہاڑوں میں سے کچھ سفید اور سرخ قطعے ہیں، جن کے رنگ مختلف ہیں اور کچھ سخت کالے سیاہ ہیں۔ اور کچھ لوگوں اور جانوروں اور چوپاؤں میں سے بھی ہیں جن کے رنگ اسی طرح مختلف ہیں، اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں، بے شک اللہ سب پرغالب، بے حد بخشنے والا ہے۔‘‘