وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں (١١) تاکہ تم ان کے پاس سکون پاؤ، اور تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کی، بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں
1۔ وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا ....: یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی کمال قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمھاری خاطر (نہ کہ اپنے کسی فائدے کے لیے) خود تمھی میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف جاکر سکون حاصل کرو۔ ’’سَكَنَ عِنْدَهُ‘‘ کا معنی ہے جسمانی طور پر کسی کے پاس جا کر رہنا اور ’’سَكَنَ إِلَيْهِ‘‘ قلبی اور روحانی طور پر کسی کے پاس راحت و سکون پانا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی ہے کہ ہمارے والد ماجد آدم علیہ السلام کو جنت میں رہ کر بھی، جہاں ہر نعمت موجود تھی، سکون اسی وقت حاصل ہوا جب اللہ تعالیٰ نے خود ان کی ذات سے ان کی بیوی اور ہماری ماں حواعلیھا اسلام کو پیدا فرمایا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ﴾ [ الأعراف : ۱۸۹] ’’وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ اس کی طرف (جاکر) سکون حاصل کرے۔‘‘ آدم علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد کے سکون کے لیے مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے جوڑے بنا دیا۔ یہ اس کی قدرت کا کمال ہے کہ مردوں اور عورتوں کی پیدائش ہمیشہ اس اعتدال اور توازن سے رہی ہے کہ ان کی باہمی زوجیت کی ضرورت پوری ہوتی رہتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مرد اتنے زیادہ ہو جائیں کہ انھیں بیوی نہ مل سکے یا عورتیں اتنی بڑھ جائیں کہ انھیں خاوند نہ مل سکیں، اور یہ بھی اس کی حکمت ہے کہ مرد کو عورت اور عورت کو مرد کے پاس ہی سکون حاصل ہو سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود انسانوں میں سے ان کے جوڑے پیدا فرمائے۔ معلوم ہوا وہ تمام کہانیاں یکسر افسانے ہیں جن میں انسانوں اور جنوں کے درمیان زوجیت اور توالد و تناسل کا ذکر ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ راہب اور جوگی جو انسانی فطرت سے جنگ کر کے عورتوں سے قطع تعلق کے ساتھ سکون تلاش کرتے رہے یا کر رہے ہیں، سخت دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں، کیونکہ فطرت سے جنگ کا انجام ہمیشہ شکست ہوتا ہے۔ جس طرح بھوک کے وقت کھانا اللہ تعالیٰ سے تعلق کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ انسان کی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے، اسی طرح شادی اللہ تعالیٰ سے تعلق کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ انسان کے لیے سکون کا باعث اور اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ اولاد آدم میں سب سے زیادہ متقی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيْبُ وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِيْ فِي الصَّلاَةِ )) [ نسائي، عشرۃ النساء، باب حب النساء : ۳۳۹۱، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ] ’’دنیا میں سے میرے لیے عورتیں اور خوشبو محبوب بنا دی گئیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بنا دی گئی۔‘‘ یاد رہے! یہ سکون مرد اور عورت کے نکاح کے تعلق ہی سے حاصل ہو سکتا ہے، کیونکہ زوجیت کا جائز طریقہ یہی ہے۔ بدکاروں کو یہ نعمت میسر نہیں آ سکتی۔ کافر اقوام نے اللہ کے احکام سے بغاوت کر کے نکاح کے بغیر مرد عورت کے زندگی گزارنے کی جو روش اختیار کر رکھی ہے اس سے انھیں وہ سکون کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جو خاوند اور بیوی کو حاصل ہوتا ہے، اور ان ملعونوں کا تو ذکر ہی کیا جو مردوں کی مردوں سے یا عورتوں کی عورتوں سے ہوس پوری کر کے، یا کتوں بلیوں اور دوسرے جانوروں سے سکون حاصل کرنے کی ناکام و نامراد کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ یہ انسانوں ہی نہیں جانوروں کی فطرت کے بھی خلاف ہے۔ 2۔ وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً....: یعنی مرد عورت کی زوجیت میں سکون کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوستی اور رحمت رکھ دی ہے۔ دنیا میں عشق کی بے شمار داستانیں مشہور ہیں اور ہر طرف اسی کا شور اور ہنگامہ ہے، مگر حقیقی دوستی اور محبت جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاوند اور بیوی کے درمیان پیدا ہوتی ہے، ناجائز عشق اور حرام محبت میں گرفتار لوگ اس کی بُو بھی نہیں پا سکتے۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی نہیں کہ وہ مرد اور عورت جو ایک دوسرے سے پوری طرح واقف بھی نہیں ہوتے، نکاح کے بعد صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے مودّت اور محبت کے ایسے رشتے میں بندھ جاتے ہیں جو زندگی بھر قائم رہتا اور دن بدن مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَمْ نَرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلَ النِّكَاحِ )) [ ابن ماجہ، النکاح، باب ما جاء في فضل النکاح : ۱۸۴۷، عن ابن عباس و صححہ البوصیري و الألباني ] ’’ہم نے دو محبت کرنے والوں کے لیے نکاح جیسی چیز نہیں دیکھی۔‘‘ اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری لکھتے ہیں : ’’یعنی جب عورت اور مرد کو ایک دوسرے سے محبت ہوجائے تو ہم نے ان کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی، کیونکہ اس سے محبت میں مزید اضافہ ہوتا ہے، جب کہ زنا کے نتیجے میں محبت کے بجائے عداوت اور بغض پیدا ہوتا ہے۔‘‘ 3۔ وَ رَحْمَةً: اللہ کی قدرت کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی دوستی اور محبت کے ساتھ ساتھ وہ رحم اور مہربانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان رکھ دی ہے کہ وہ تندرستی اور صحت و جوانی میں بھی اور بڑھاپے اور بیماری میں بھی ایک دوسرے پر نہایت مہربان اور رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔ جب کہ عاشقوں اور بدکاروں کا عشق کتنا ہی شور انگیز ہو، حسن کے ڈھلنے کے ساتھ ہوا میں بکھر جاتا ہے اور اس میں محبوب پر رحم کے بجائے اصل جذبہ اپنی ہوس پوری کرنا اور خالص خود غرضی ہوتا ہے۔ 4۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ : ’’ فِيْ ذٰلِكَ ‘‘ (اس میں) سے مراد پچھلی آیت اور اس آیت میں مذکور چیزیں ہیں، یعنی تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کرنے میں، تمھارے زمین کے اندر بشر کی صورت میں پھیل جانے میں، تمھارے سکون کے لیے خود تمھی میں سے تمھارے جوڑے پیدا کرنے میں اور تمھارے درمیان دوستی اور رحمت کا جذبہ پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت، اس کی قدرت اور اس کے آخرت قائم کرنے پر دلالت کرنے والی بہت سی نشانیاں ہیں، مگر صرف ان لوگوں کے لیے جو ان چیزوں میں غور و فکر کریں۔