وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمان سے پانی کس نے اتارا (٣٨) ہے، جس کے ذریعے وہ مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے، تو وہ کہیں گے : اللہ، آپ کہئے کہ ساری تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، لیکن اکثر مشرکین عقل سے کام نہیں لیتے ہیں
1۔ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً....: پچھلی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی صفت ’’خلق‘‘ اور ’’رزق‘‘ کا ذکر تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت ’’إِحْيَاءٌ بَعْدَ الْمَوْتِ ‘‘ (موت کے بعد زندہ کرنے) کا ذکر ہے۔ فرمایا، اگر تو ان سے پوچھے کہ کون ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کر دیا؟ تو یقیناً وہ کہیں گے کہ وہ ’’الله‘‘ ہے۔ 2۔ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ : کفار کے اعتراف کو توحید کی دلیل کے طور پر بیان کرنے کے بعد فرمایا ’’الحمداللّٰہ‘‘ کہو، کیوں کہ جب مخاطب پر کوئی ایسی دلیل پیش کی جائے جو اس کے ہاں مسلّم ہو اور وہ اس کا جواب نہ دے سکے تو حجت تمام ہونے پر ’’الحمد اللّٰہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’الحمد اللّٰہ ‘‘ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس اعتراف نعمت کے بعد تم جس شرک میں گرفتار ہو، ہم اس سے محفوظ ہیں اور یہ بھی کہ جب یہ سب نعمتیں اللہ کی عطا کر دہ ہیں اور تم اس کا اعتراف بھی کرتے ہو تو لازم ہے کہ شکر بھی اسی کا ادا کرو۔ 3۔ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ: کیوں کہ اگر وہ سمجھتے ہوتے تو اتنے اعتراف کے بعد شرک کی لعنت میں گرفتار نہ ہوتے۔ 4۔ ان کے اکثر کو ’’ لَا يَعْقِلُوْنَ ‘‘ فرمایا، سب کو نہیں، کیونکہ ان میں سے کچھ بات سمجھتے بھی تھے، جن میں سے کچھ تو ایمان لے آئے اور کچھ سمجھنے کے باوجود عناد کی وجہ سے کفر پر اڑے رہے۔