وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ ۚ فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَمِنْ هَٰؤُلَاءِ مَن يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الْكَافِرُونَ
اور ہم نے اسیطرح آپ پر بھی کتاب (٢٧) نازل کی ہے، پس جن کو ہم نے پہلے سے کتاب دی تھی، وہ لوگ اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں اور ان مشرکین میں سے بھی بعض لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار صرف اہل کفر کرتے ہیں
1۔ وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنَا اِلَيْكَ الْكِتٰبَ : یعنی جس طرح ہم نے آپ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں پر کتاب نازل کی ایسے ہی آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی۔ 2۔ فَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ: ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ‘‘ سے مراد تمام اہل کتاب نہیں، کیونکہ جس نے کتاب پڑھی ہی نہیں یا اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی یا اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور اس میں تحریف و تبدل سے کام لیا تو وہ درحقیقت ان لوگوں میں شامل ہی نہیں جنھیں کتاب دی گئی، کیونکہ انھوں نے اسے اس طرح لیا ہی نہیں جیسے لینا چاہیے تھا۔ یعنی وہ لوگ جنھیں ہم نے اس سے پہلے کتاب دی اور وہ فی الواقع اس کا اتباع کرتے ہیں وہ اس کتاب (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں، کیونکہ دونوں کا مضمون اصولی طور پر ایک ہے اور پہلی کتابوں کی کوئی خوبی ایسی نہیں جو اس میں موجود نہ ہو، بلکہ یہ کتاب تو پہلی کتابوں پر مہیمن (نگران) ہے اور یہ زندۂ جاوید معجزہ ہے، تو حقیقی اہلِ کتاب اس پر کیوں ایمان نہیں لائیں گے۔ 3۔ وَ مِنْ هٰؤُلَآءِ مَنْ يُّؤْمِنُ بِهٖ : یعنی ان اہلِ عرب مشرکین میں سے بھی کئی لوگ اس پر ایمان لا رہے ہیں اور لائیں گے، جو حق واضح ہونے کے بعد اسے قبول کرنے والے ہیں۔ 4۔ وَ مَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَا اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ : ’’ جُحُوْدٌ ‘‘ کا معنی کسی بات کا علم ہونے کے باوجود اس کا انکار کر دینا ہے۔ (دیکھیے نمل : ۱۴) جبکہ ’’كُفْرٌ‘‘ کا لفظ ایمان کے مقابلے میں آتا ہے، اس کا معنی ناشکری بھی ہے، انکار بھی اور چھپانا بھی۔ (قاموس) ’’آيَاتِنَا ‘‘ کا لفظی معنی نشانیاں ہیں، مراد قرآن مجید ہے، کیونکہ اس کی تمام آیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانیاں اور معجزہ ہیں، جن کے مقابلے کی آیات پوری کائنات پیش نہیں کر سکتی اور اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ ان کا انکار ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں کرے گا جو حق کا علم رکھتے ہوئے اسے چھپاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں۔