وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَٰهُنَا وَإِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
اور تم لوگ اہل کتاب سے بحث و مادلہ (٢٦) صرفا سی طریقہ سے کرو جو سب سے عمدہ ہو، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا اور کہو کہ ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو ہم پر نازل کی گئی ہے اور تم پر نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے اور ہم نے اسی کے سامنے اپنے سر جھکا رکھے ہیں۔
1۔ وَ لَا تُجَادِلُوْا اَهْلَ الْكِتٰبِ ....: یعنی مشرکوں کا دین جڑ سے غلط ہے اور کتاب والوں کا دین اصل میں سچ تھا تو ان سے ان کی طرح نہ جھگڑو کہ جڑ سے ان کی بات کاٹو، بلکہ نرمی سے واجبی بات سمجھاؤ، مگر ان میں جو (صریح) بے انصافی پر (اتر) آئے اس کی سزا وہی ہے(یعنی اس کے ساتھ اس کے جرم کے مطابق سلوک کرو)۔ (موضح) 2۔ کتاب اللہ کی تلاوت کے حکم کے بعد فرمایا کہ اہل کتاب میں سے جو اسے سن کر سمجھنے کے لیے بحث کرے اس کے ساتھ ایسے طریقے ہی سے بحث کرو جو بہتر سے بہتر ہوسکتا ہے۔ کیا عجب ہے کہ وہ راہِ راست اختیار کرے۔ دوسری آیت میں یہ حکم عام ہے اور دعوتِ دین میں ہر ایک کے ساتھ یہی طریقہ اختیار کرنے کا حکم ہے، فرمایا : ﴿ اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ ﴾ [ النحل : ۱۲۵ ] ’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ بے شک تیرا رب ہی زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہی ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۳۴ ] ’’ اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔‘‘ اور جیسا کہ موسیٰ و ہارون علیھما السلام کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے حکم دیا : ﴿ فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى ﴾ [ طٰہٰ : ۴۴ ] ’’پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، یا ڈر جائے۔‘‘ 3۔ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ : یعنی ان میں سے جو ظلم پر اڑ جائیں، ضد اور تعصب برتیں اور حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیں، پھر مناظرے و مباحثے بے سود ہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ بات میں سختی جائز ہے اور آگے چل کر ان کے ساتھ جدال کے بجائے قتال ہو گا، اس وقت تک کہ ایمان لے آئیں یا جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ ﴾ [ التوبۃ : ۲۹ ] ’’لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔‘‘ مکی سورتوں میں آنے والے وقت میں کفار کے ساتھ قتال کے اشارے کئی جگہ موجود ہیں۔ 4۔ وَ قُوْلُوْا اٰمَنَّا بِالَّذِيْ اُنْزِلَ اِلَيْنَا : اس میں ہمیں حکم ہے کہ بحث مباحثہ میں اہل کتاب جب کوئی ایسی بات بیان کریں جس کے متعلق معلوم نہ ہو کہ صحیح ہے یا غلط، سچ ہے یا جھوٹ، تو ہم نہ اسے جھوٹا کہیں، کیوں کہ ہوسکتا ہے وہ سچ ہو اور نہ سچا کہیں، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ جھوٹ ہو، بلکہ اس پر مجمل ایمان رکھیں، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہو، نہ اس میں کوئی تبدیلی ہوئی ہو اور نہ کوئی تاویل اور یہ کہیں ’’ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور جو تمھاری طرف نازل کیاگیا۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: (( كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُوْنَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ ، وَ يُفَسِّرُوْنَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلاَمِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُصَدِّقُوْا أَهْلَ الْكِتَابِ، وَلاَ تُكَذِّبُوْهُمْ وَ ﴿قُوْلُوْا آمَنَّا بِاللہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا ﴾ )) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿قولوا آمنا باللّٰہ ....﴾ : ۴۴۸۵ ] ’’اہلِ کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور اہلِ اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اہل کتاب کو نہ سچا کہو اور نہ انھیں جھوٹا کہو اور یہ کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا۔‘‘ واضح رہے کہ پہلی کتابوں کے متعلق اجمالی طور پر یہ تسلیم کرنا تو ضروری ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی ہیں، مگر عمل صرف قرآن و حدیث پر کیا جائے گا۔ اس مضمون کی مزید تفصیل کے لیے اس تفسیر کے مقدمہ میں اسرائیلیات کا عنوان ملاحظہ فرمائیں۔ 5۔ وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ ....: یعنی اہلِ کتاب کو اپنے اور ان کے درمیان مشترک مسائل پیش کرکے قائل کرنے کی کوشش کرو، جن میں سب سے اہم چیز اللہ تعالیٰ کی توحید ہے، جو اب بھی تحریف کے باوجود تورات اور انجیل میں جابجا موجود ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران کی آیت (۶۴) کی تفسیر۔