إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم اللہ کے سوا صرف بتوں کی پرستش کرتے ہو اور (اللہ پر) بہتان تراشتے ہو بے شک الہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہاری روزی کے مالک نہیں ہیں پس تم لوگ اللہ سے روزی طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کاشکر ادا کرو تم سب کواسی کے پاس لوٹ کرجانا ہے
1۔ اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا: قرآن مجید میں بتوں کے لیے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں : (1) ’’صَنَمٌ‘‘ اس کی جمع ’’أَصْنَامٌ‘‘ہے، معنی ہے وہ بت جو قابل انتقال اور قابل فروخت ہوں، خواہ وہ پیتل یا لوہے یا چاندی کے ہوں، یا لکڑی کے یا پتھر کے اور ’’صِنَاعَةُ الْأَصْنَامِ‘‘ کا معنی ہے بت تراشی کا فن، جیسے ابراہیم علیہ السلام کا باپ بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ (2) ’’نَصَبٌ‘‘ اس کی جمع ’’أَنْصَابٌ‘‘ ہے، معنی ہے ایسے بت یا مجسّمے جنھیں پوجا پاٹ کے لیے نصب کر دیا گیا ہو، جیسے مشرکین مکہ کے بت لات، منات، عزیٰ اور ہبل وغیرہ تھے۔ (3) ’’ أَوْثَانٌ‘‘یہ ’’وَثَنٌ‘‘ کی جمع ہے، وثن کا تعلق زیادہ تر مقامات سے ہوتا ہے، یعنی آستانے وغیرہ، خواہ وہاں بت نصب ہوں یا نہ ہوں۔ بعض دفعہ بعض مخصوص مقامات پر پتھروں، درختوں (مثلاً پیپل وغیرہ)، ستاروں (مثلاً قطب وغیرہ) یا دریاؤں (مثلاً گنگا وغیرہ) سے الٰہی صفات کا عقیدہ رکھ کر ان کی پرستش شروع کر دی جاتی ہے اور ایسے مقامات بسا اوقات کسی بزرگ یا کسی ولی یا کسی بت سے منسوب ہوتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے جو ’’ اَوْثَانًا ‘‘ کا ذکر کیا تو اس سے مراد ان کی قوم کے بت خانے ہیں جن میں بت از خود شامل ہیں۔ (کیلانی) وہ قبریں بھی ’’اوثان‘‘ میں شامل ہیں جن کی عبادت کی جائے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَللّٰهُمَّ لاَ تَجْعَلْ قَبْرِيْ وَثَنًا يُّعْبَدُ، لَعَنَ اللّٰهُ قَوْمًا اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ)) [مسند أحمد : 2؍246، ح : ۷۳۷۶، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ، قال المحقق و إسنادہ قوي.... الموطأ :1؍ 172، ح : ۴۱۴ ] ’’اے اللہ! میری قبر کو وثن (بت) نہ بنانا، جس کی عبادت کی جائے۔ اللہ ان لوگوں پر لعنت فرمائے جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا۔‘‘ 2۔ وَ تَخْلُقُوْنَ اِفْكًا : یعنی تم لوگ بت نہیں گھڑتے بلکہ جھوٹ کا پلندہ گھڑتے ہو، ان بتوں اور بت خانوں سے تم کئی قصے اور کہانیاں خود گھڑ کر ان سے منسوب کر دیتے ہو۔ مثلاً اگر فلاں آستانے پر مہینے میں ایک دفعہ دودھ کا چڑھاوا نہ چڑھایا جائے تو جانور بیمار پڑ جاتے ہیں یا مر جاتے ہیں، یا فلاں آستانے کی گستاخی یا توہین کا انجام اتنا خطرناک ہوتا ہے، یا فلاں بت خانے یا مزار پر حاضری دینے سے رزق میں فراوانی ہو جاتی ہے، لہٰذا تم جو ان بتوں کو گھڑتے ہو تو ساتھ ہی جھوٹ کے پلندے بھی گھڑتے ہو، ورنہ صرف بت گھڑنے کا تمھیں کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ (کیلانی) 3۔ اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ....: اس آیت میں اور اس سے پہلی آیت میں ابراہیم علیہ السلام نے شرک کے ابطال پر تین دلائل قوم کے سامنے رکھے، ایک یہ کہ یہ بت تمھارے اپنے گھڑے ہوئے ہیں، گویا تم اللہ کی مخلوق ہو اور یہ تمھاری مخلوق ہیں اور الٰہ کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ خالق ہے باقی سب اس کی مخلوق ہے اور جو مخلوق ہے وہ الٰہ نہیں ہو سکتا اور یہ الٰہ تو مخلوق در مخلوق ہیں، یہ الٰہ کیسے بن گئے؟ دوسری دلیل یہ ہے کہ ان بتوں کے نفع یا نقصان سے متعلق تمھیں خود ہی داستانیں اور قصے کہانیاں تراشنا پڑتی ہیں۔ اگر تمھارے ان قصے کہانیوں کو ان سے علیحدہ کر دیا جائے تو باقی یہ پتھر کے پتھر یا بے جان مادّے ہی رہ جاتے ہیں اور ایسے مادّے الٰہ کیسے ہو سکتے ہیں ؟ تیسری دلیل یہ ہے کہ یہ تمھیں رزق کیا دیں گے، رزق تو تم خود ان کے آگے چڑھاووں اور نذروں نیازوں کی صورت میں رکھتے ہو، چاہو تو تم ان کے آگے رزق رکھ دو، چاہو تو اٹھا لو اور چاہو تو ان کے اوپر مل دو۔ لہٰذا ایسے غلط عقائد ان سے منسوب نہ کرو اور رزق مانگنا ہے تو اللہ سے مانگو اور جس کا کھاؤ اسی کا گن گاؤ، اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکربجا لاؤ۔ (کیلانی) شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ’’اکثر خلق روزی کے پیچھے ایمان دیتی ہے، سو جان رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی روزی نہیں دیتا اپنی خوشی کے موافق۔‘‘ (موضح) 4۔ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ : یعنی بالآخر تمھیں اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور تمھارا انجام اسی کے ہاتھ میں ہے، ان بتوں کی طرف نہ تم نے پلٹنا ہے، نہ تمھارا انجام ان کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا تمھیں عبادت تو اس کی کرنی چاہیے جو تمھاری عاقبت کو سنوار سکتا ہے اور رزق بھی اسی سے مانگنا چاہیے۔