وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
وہ یقینا اپنے گناہوں کابوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھ کے ساتھ دوسرے بوجھ بی اور (اور دنیا میں اللہ، رسول، اور دین اسلام کے بارے میں) جو کچھ جھوٹ بولتے رہے تھے قیامت کے دن ان سے اس کے بارے میں پوچھاجائے گا
1۔ وَ لَيَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ: یعنی یہ جھوٹے ہیں، ان کا بوجھ رتی برابر ہلکا نہیں کر سکتے، ہاں اپنا بوجھ بھاری کر رہے ہیں، ایک تو یہ اپنے ذاتی گناہوں کا بوجھ اٹھائیں گے اور دوسرا اس کے ساتھ ان لوگوں کے گناہوں کا بھی جنھیں انھوں نے گمراہ کیا تھا، اگرچہ ان کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ (دیکھیے نحل : ۲۵) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ دَعَا إِلٰی هُدًی كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذٰلِكَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ دَعَا إِلٰی ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذٰلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا )) [مسلم، العلم، باب من سنّ سنۃ حسنۃ أو سیئۃ....: ۲۶۷۴ ] ’’جو شخص ہدایت کے کسی کام کی طرف دعوت دے اسے ان لوگوں کے اجروں جیسا اجر ملے گا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں کرے گا اور جو شخص گمراہی کے کسی کام کی طرف دعوت دے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جیسا گناہ ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں کرے گا۔‘‘ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لاَ تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلاَّ كَانَ عَلَي ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا، لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ )) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ : ۳۳۳۵ ] ’’کوئی جان ظلم سے قتل نہیں کی جاتی مگر آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا ایک حصہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کا طریقہ شروع کیا۔‘‘ 2۔ وَ لَيُسْـَٔلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ....: یعنی جو جھوٹی باتیں یہ بناتے ہیں کہ ہم تمھارا بوجھ اٹھا لیں گے یہ خود مستقل گناہ ہے، اس افترا کی بھی انھیں سزا ملے گی۔ جس میں ان سے کی جانے والی بازپرس بھی ہو گی، جو بجائے خود نہایت خوفناک مرحلہ ہے۔