وَمَن جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ
اور جو شخص عمل صالح کے لیے کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے کرتا ہے بے شک اللہ سارے جہان والوں سے بے نیاز ہے
1۔ وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ: ’’جَهَدَ يَجْهَدُ‘‘ کا معنی کوشش کرنا ہے اور ’’ جَاهَدَ ‘‘ (مفاعلہ) میں مقابلے کا مفہوم بھی ہے اور مبالغے کا بھی، یعنی کسی کے مقابلے میں پوری کوشش لگا دینا۔ مومن کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر کاربند رہنے کے لیے بہت سی چیزوں کے مقابلے میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اسے اپنے نفس کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو ہر وقت اسے اپنی خواہش کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے، شیطان کا بھی جس نے اس کی دشمنی کی قسم کھا رکھی ہے اور اپنے گھر سے لے کر تمام دنیا کے ان انسانوں کا بھی جو اسے راہ حق سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، حتیٰ کہ اسے اس کوشش میں لڑائی بھی کرنا پڑتی ہے، جس میں وہ دشمن کو قتل کرتا ہے اور خود بھی قتل ہو جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں جہاد کا لفظ اکثر اسی معنی میں آیا ہے۔ سب سے اونچا درجہ اس کا وہ ہے، جب وہ سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا کر قربان ہو جاتا ہے۔ عبد اللہ بن حُبْشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں (لمبی حدیث ہے): (( قِيْلَ فَأَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ مَنْ جَاهَدَ الْمُشْرِكِيْنَ بِمَالِهِ ، وَنَفْسِهِ، قِيْلَ فَأَيُّ الْقَتْلِ أَشْرَفُ ؟ قَالَ مَنْ أُهْرِيْقَ دَمُهُ ، وَعُقِرَ جَوَادُهُ )) [ مسند أحمد :3؍411، ۴۱۲، ح : ۱۵۴۰۷، قال محقق المسند إسنادہ قوي۔ أبوداؤد : ۱۴۴۹، قال الألباني صحیح ]’’(نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے) سوال کیا گیا کہ کون سا جہاد افضل ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو مشرکین کے ساتھ اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرے۔‘‘ پوچھا گیا : ’’پھر کون سا قتل سب سے اونچی شان والا ہے؟‘‘ فرمایا : ’’جس کا خون بہا دیا جائے اور اس کا عمدہ گھوڑا کاٹ دیا جائے۔‘‘ 2۔ فرمایا، جو شخص اپنے نفس یا شیطان یا کسی بھی دشمن کے مقابلے میں اپنی آخری کوشش لگا دیتا ہے اس کا فائدہ خود اس کو ہے، اللہ تعالیٰ کو نہ کسی کی عبادت سے کوئی فائدہ ہے نہ کسی کے گناہ سے کوئی نقصان، بلکہ اگر کسی کو توفیق ملی ہے تو اسے مزید اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ حم السجدہ کی آیت (۴۶) : ﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَ مَنْ اَسَآءَ فَعَلَيْهَا ﴾ ’’جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہو گی۔‘‘ اور سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۷) : ﴿ اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا ﴾ ’’اگر تم نے بھلائی کی تو اپنی جانوں کے لیے بھلائی کی اور اگر برائی کی تو انھی کے لیے۔‘‘ 3۔ اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ : ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب تعالیٰ سے بیان کیا، لمبی حدیث ہے، اس میں ہے: (( يَا عِبَادِيْ ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوْا عَلٰی أَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ مَا زَادَ ذٰلِكَ فِيْ مُلْكِيْ شَيْئًا، يَا عِبَادِيْ ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوْا عَلٰی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ، مَا نَقَصَ ذٰلِكَ مِنْ مُلْكِيْ شَيْئًا )) [مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ۲۵۷۷ ] ’’اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے اور تمھارے پچھلے، تمھارے انسان اور تمھارے جنّ سب تم میں سے ایک ایسے آدمی جیسے ہو جائیں جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیز گار ہے تو اس سے میری بادشاہت میں کچھ بھی اضافہ نہیں ہو گا اور اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے اور تمھارے پچھلے، تمھارے انسان اور تمھارے جنّ سب تم میں سے ایک ایسے آدمی جیسے ہو جائیں جو تم میں سے سب سے زیادہ فاجر ہے تو اس سے میری بادشاہت میں سے کچھ بھی کم نہیں ہو گا۔‘‘ 4۔ مفسر رازی نے فرمایا، اس آیت میں خوش خبری بھی ہے اور ڈرانا بھی۔ ڈرانا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جب سارے جہانوں سے غنی ہے تو اگر وہ تمام بندوں کو اپنے عذاب کے ساتھ ہلاک کر دے تو کوئی اسے پوچھنے والا نہیں اور خوش خبری اس لیے کہ اس نے جو کچھ پیدا کیا ہے اپنے بندوں میں سے کسی ایک بندے کو دے دے تو اس کا کچھ کم نہیں ہوتا، کیونکہ اس میں سے کسی چیز کی اسے تو ضرورت نہیں، وہ سارے جہانوں سے بے پروا ہے، پھر ’’كُنْ‘‘ کہہ کر وہ جتنا چاہے اور پیدا کر سکتا ہے، یہ بات بہت امید دلانے والی اور بہت بڑی خوش خبری ہے۔