وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور اللہ نے تمہیں جو دولت دی ہے اس کے ذریعہ آخرت کا گھر حاصل کرو اور دنیا میں سے اپنا حصہ نہ بھولو جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا ہے تم بھی احسان کرو اور زمین میں فساد نہ چاہو بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
1۔ وَ ابْتَغِ فِيْمَا اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ: اور اللہ تعالیٰ نے تجھے جو کچھ عطا فرمایا ہے اس کے ذریعے سے آخری گھر یعنی جنت حاصل کرنے کی کوشش کر۔ 2۔ وَ لَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا : یعنی مت بھول کہ دنیا جو تجھے عطا کی گئی ہے، اس میں تیرا حصہ کیا ہے۔ اس کی بہترین تفسیر وہ حدیث ہے جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( يَقُوْلُ الْعَبْدُ مَالِيْ مَالِيْ إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَّالِهِ ثَلَاثٌ، مَا أَكَلَ فَأَفْنٰی أَوْ لَبِسَ فَأَبْلٰی أَوْ أَعْطٰی فَاقْتَنٰی وَمَا سِوَی ذٰلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ وَ تَارِكُهُ لِلنَّاسِ )) [مسلم، الزھد، باب ’’ الدنیا سجن للمؤمن و جنۃ للکافر ‘‘ : ۲۹۵۹ ] ’’بندہ کہتا ہے میرا مال، میرا مال، حالانکہ اس کے مال میں اس کی تو صرف تین چیزیں ہیں، جو اس نے کھایا اور فنا کر دیا، یا پہنا اور پرانا کر دیا، یا (اللہ کی راہ میں) دیا اور ذخیرہ بنا لیا اور جو اس کے سوا ہے تو یہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑ کر (دنیا سے) جانے والا ہے۔‘‘ بعض مفسرین نے فرمایا، کسی چیز میں آدمی کا حصہ وہ نہیں ہوتا جو اس سے جدا ہو جائے، بلکہ وہ ہوتا ہے جو اس کے ساتھ رہے۔ اس کے مطابق دنیا میں سے آدمی کا حصہ وہ نیکی ہے جو آخرت میں اس کے ساتھ جائے۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا، دنیا میں سے آدمی کے حصے سے مراد اس کا کفن ہے، کیونکہ اس کے سوا وہ کوئی چیز ساتھ لے کر نہیں جاتا: نَصِيْبُكَ مِمَّا تَجْمَعُ الدَّهْرَ كُلَّهُ رِدَائَانِ تُلْوٰي فِيْهِمَا وَ حَنُوْطُ ’’ساری عمر تو جو کچھ جمع کرے گا اس میں سے تیرا حصہ دو چادریں ہیں، جن میں تجھے لپیٹا جائے گا اور مُردے کو لگائی جانے والی خوشبو ہے۔‘‘ ایک تفسیر جو اکثر مفسرین نے بیان فرمائی ہے، یہ ہے کہ مال کا حریص بعض اوقات بخل کی اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنی جان پر بھی خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے، اپنے کھانے، پہننے اور دوسری ضروریات میں بھی بخل سے کام لیتا ہے۔ قارون کو بزرگوں نے نصیحت کی کہ دنیا میں اپنے حصے کو مت بھول، اپنی جان پر بھی ضرورت کے مطابق خرچ کر۔ یہ چاروں تفسیریں درست ہیں اور ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ 3۔ وَ اَحْسِنْ كَمَا اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ : یعنی جیسے اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان (بہترین سلوک) کیا ہے، یہ مال و دولت اور شان و شوکت تجھے کسی بدلے کے بغیر عطا کی ہے، اسی طرح تو بھی اللہ کی مخلوق کے ساتھ احسان کر، یعنی ان سے کسی صلے کی خواہش کے بغیر بہترین سلوک کر۔ احسان کی یہ تفسیر اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو جو کچھ دیا ہے کسی بدلے کے بغیر دیا ہے۔ والدین کے ساتھ بھی اسی احسان کا حکم ہے، فرمایا : ﴿ وَ بِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۲۳ ] ’’اور ماں باپ کے ساتھ بہت اچھا سلوک کر۔‘‘ کیونکہ بڑھاپے میں ان سے کسی صلے کی توقع نہیں ہوتی۔ احسان کی تفسیر حدیث میں یہ بھی آئی ہے: (( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ )) [بخاري، الإیمان، باب سؤال جبریل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ....: ۵۰ ] ’’اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے، پھر اگر تو اسے نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھتا ہے۔‘‘ اس تفسیر کے مطابق مطلب یہ ہو گا کہ جیسے اللہ نے تیرے ساتھ بہترین سلوک کیا ہے تو بھی اس کے ساتھ بہترین معاملہ رکھ کہ ہر وقت اور ہر کام میں اسے پیشِ نظر رکھ اور اپنے ہر حال پر اس کی نگرانی کو اس طرح مدنظر رکھ کہ تیرا ہر کام اور تیری ہر حرکت اس کی رضا کے مطابق ہو، یہ احسان ہے۔ 4۔ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ ....: زمین میں ہر خرابی اور ہر فساد اللہ کے ساتھ شرک اور اس کی اور اس کے رسول کی نافرمانی سے پیدا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ ﴾ [ الروم : ۴۱ ] ’’خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا۔‘‘ قوم کے دانش مند لوگوں نے قارون کو زمین میں فساد کی کوشش سے منع کیا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ مفسدوں سے محبت نہیں رکھتا۔