وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور آپ کا رب جو کچھ چاہتا (٣٥) ہے پیدا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے (اپنی رسالت کے لیے) چن لیتا ہے ان مشرکین کو کوئی اختیار نہیں (کہ وہ ہمارے شرک چنیں) اللہ تمام عیوب سے پاک اور مشرکوں کے شرک سے بلند وبالا ہے
1۔ وَ رَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَ يَخْتَارُ : قیامت کے دن مشرکین کی رسوائی اور ان کے شرکاء کی بے بسی کے اظہار کے بعد اللہ تعالیٰ کی توحید کا اور اس کے چند دلائل کا ذکر فرمایا۔ چنانچہ فرمایا : ’’تیرا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جس چیز کو یا جس شخص کو چاہتا ہے چن لیتا ہے۔‘‘ ظاہر ہے جس نے پیدا کیا وہی چنے گا۔ جس کا پیدا کرنے میں کوئی حصہ ہی نہیں، کسی چیز یا شخص کے انتخاب میں اس کا کیا دخل ہو سکتا ہے۔ پھر کسی چیز یا شخص کو چننا صرف اسی کی مشیت پر موقوف ہے، نہ اس میں کسی کا مشورہ چلتا ہے، نہ کسی چیز یا شخص کی خوبی کی وجہ سے اسے چننا اس پر لازم ہے، کیونکہ : ﴿ لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَ هُمْ يُسْـَٔلُوْنَ ﴾ [ الأنبیاء : ۲۳ ] ’’اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھا جاتا ہے۔‘‘ اس نے چاہا تو عرش کو برتری بخشی، کعبہ کو قبلہ بنایا، انبیاء کو نبوت بخشی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سید ولد آدم بنایا، مہاجرین و انصار کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے چنا، خلفائے اربعہ کو تمام صحابہ پر برتری بخشی، کوئی کہہ نہیں سکتا کہ نبوت فلاں کو کیوں نہیں ملی، جیسے کفار نے کہا تھا : ﴿لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيْمٍ ﴾ [ الزخرف : ۳۱ ] ’’یہ قرآن ان دو بستیوں (مکہ اور طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا؟‘‘ جواب میں فرمایا : ﴿ اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ﴾ [ الزخرف : ۳۲ ] ’’کیا تیرے رب کی رحمت وہ تقسیم کرتے ہیں۔‘‘ 2۔ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ : بندوں کے پاس یہ اختیار کبھی بھی نہ تھا، نہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہیں چن لیں، (كَانَ میں نفی کا استمرار ہے) پھر ان مشرکین کو یہ اختیار کہاں سے مل گیا کہ رب تعالیٰ کے بندوں کو رب تعالیٰ کے اختیارات کا مالک بنا دیں، جو اس نے کسی کو دیے ہی نہیں، نہ ان اختیارات کا مالک اس کے سوا کوئی ہو سکتا ہے۔ آخر انھیں کس نے یہ اختیار دیا کہ اس کے بندوں میں سے جسے چاہیں مشکل کُشا بنا لیں، جسے چاہیں داتا (رزاق)، گنج بخش، فریاد رس یا دستگیر قرار دے دیں۔ اولاد، رزق، فتح و شکست، عزت و ذلت، شفا و مرض، زندگی اور موت کے محکمے، جو اس نے کسی کو دیے ہی نہیں، اپنے بنائے ہوئے شریکوں میں تقسیم کرتے پھریں۔ 3۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ انبیاء یا اولیاء کو یہاں تک اختیار حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ کمان سے نکلا ہوا تیر بھی واپس لے آتے ہیں اور تقدیر کا لکھا تک مٹا دیتے ہیں، یا بدل دیتے ہیں، جسے چاہتے ہیں نواز دیتے ہیں، جسے چاہتے ہیں راندۂ درگاہ بنا دیتے ہیں، یہ سب کفریہ باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کے پاس یہ اختیار ذاتی طور پر ہے، نہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو یہ اختیار دیا ہے، فرمایا : ﴿ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ﴾ ’’ان کے لیے کبھی بھی اختیار نہیں۔‘‘ 4۔ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کے پاس اختیار ہونا اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے عیب ہے کہ وہ اکیلا سب کچھ کرنے پر قادر نہیں اور اس کی شان کو گرا دینے والی بات ہے، اس لیے فرمایا : ’’اللہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔‘‘ ’’عَلَا يَعْلُوْ عُلْوًا‘‘ (بلند ہونا) اور ’’تَعَالٰي يَتَعَالٰي تَعَالِيًا‘‘ (بہت بلند ہونا)۔ معلوم ہوا کہ اس کارخانۂ قدرت میں کسی بندے کو، چاہے وہ ولی یا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، کوئی اختیار نہیں ہے۔ تمام اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ ’’ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ‘‘ کے الفاظ اکٹھے قرآن میں صرف اسی ایک مقام پر آئے ہیں۔ 5۔ دنیا میں بندے کو عمل کرنے یا نہ کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے، جس پر اسے ثواب یا عذاب ہو گا، اس کے اوپربھی اللہ تعالیٰ ہی کا اختیار ہے۔ اس لیے یہ کہنا حق ہے کہ مخلوق کو کوئی اختیار نہیں۔ قرآن و حدیث کے مطابق یہ دو باتیں ماننا ضروری ہیں، ایک یہ کہ بندے کو اسباب کے تحت بعض اشیاء میں اختیار دیا گیا ہے، چاہے تو کفر کا راستہ اختیار کرے اور چاہے تو شکر کا۔ وہ مجبور محض نہیں کہ کسی عمل میں اسے کسی طرح کا اختیار بھی نہ ہو، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا ﴾ [الدھر : ۳ ] ’’بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھایا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ ناشکرا۔‘‘ دوسری بات یہ کہ بندے کو یہ اختیار بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار کے تحت ہے، وہ نہ چاہے تو بندہ نہ کوئی ارادہ کر سکتا ہے نہ عمل۔ جیسا کہ سورۂ دہر میں فرمایا : ﴿ وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّا اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا ﴾ [الدھر : ۳۰ ] ’’اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، یقیناً اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ یہ اللہ کی تقدیر ہے، جس پر ایمان رکھنا لازم ہے، جو اس پر ایمان نہ رکھے مومن نہیں۔ رہی یہ بات کہ ایسا کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مالک ہے جو چاہے کرے، نہ کسی کو اس سے پوچھنے کا حق ہے نہ اختیار، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَ هُمْ يُسْـَٔلُوْنَ ﴾ [ الأنبیاء : ۲۳ ] ’’اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھاجاتا ہے۔‘‘ مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس کا ہر کام علم و حکمت پر مبنی ہے۔ مخلوق کو اس کے علم اور حکمت تک رسائی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے، اس لیے اسے اپنی اوقات میں رہنا لازم ہے۔