فَأَمَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَىٰ أَن يَكُونَ مِنَ الْمُفْلِحِينَ
مگر اس دنیا میں جو شخص اپنے گناہوں سے توبہ (٣٤) کرے گا اور ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا تو امید کی جاتی ہے کہ وہ فلاح پانے والوں میں سے ہوگا
1۔ فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ ....: قرآن مجید میں کافر و مومن اور عذاب و ثواب دونوں کے بیان کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہاں کفر پر مرنے والوں کے ذکر کے بعد توبہ کر کے ایمان اور عمل صالح والوں کا ذکر فرمایا کہ امید ہے کہ یہ لوگ فلاح پانے والوں سے ہوں گے۔ 2۔ یہاں مشہور سوال ہے کہ توبہ، ایمان اور عمل صالح والوں کے لیے فلاح کا وعدہ موجود ہے، جیسا کہ سورۂ بقرہ کے شروع میں مومنوں کی چند صفات ذکر کرنے کے بعد فرمایا : ﴿ اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ [البقرۃ : ۵ ] ’’یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے بڑی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ پورے کامیاب ہیں۔‘‘ پھر یقین کے بجائے ’’ فَعَسٰى ‘‘ (سو امید ہے) کا کیا مطلب ہے؟ اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ عام بادشاہ کسی چیز کی امید دلا دیں تو اسے پورا کرتے ہیں، تو شاہوں کا شاہ ملک الملوک امید دلائے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ پوری نہ کرے، یہ اس کی شان ہی کے خلاف ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ’’ فَعَسٰى ‘‘ (سو امید ہے) اس توبہ، ایمان اور عمل صالح والے شخص کے اعتبار سے ہے کہ اسے یہ امید رکھنی چاہیے، کیونکہ یقین تو تب ہو جب اسے قبولیت کی سند مل جائے۔