قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاهُمْ كَمَا غَوَيْنَا ۖ تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ ۖ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ
تو وہ لوگ جن پر یہ بات صادق آئے گی کہیں گے ہمارے رب یہ ہیں وہ لوگ جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا، انہیں ہم نے اسی طرح گمراہ کیا جس طرح خود گمراہ ہوئے ہم تیرے سامنے (انسے) برات کا اظہار کرتے ہیں یہ لوگ ہماری بندگی نہیں کرتے تھے
1۔ قَالَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ: ’’بات ثابت ہو چکی‘‘ سے مراد ہے ’’عذاب کی بات ثابت ہو چکی‘‘ جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ﴾ [ السجدۃ : ۱۳ ] ’’اور لیکن میری طرف سے بات پکی ہو چکی کہ یقیناً میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے ضرور بھروں گا۔‘‘ اور ’’جن پر عذاب کی بات ثابت ہو چکی‘‘ سے مراد شیاطین یا وہ بڑے بڑے پیشوا، سردار، لیڈر اور پیرفقیر قسم کے لوگ ہیں جن کو لوگوں نے دنیا میں ’’ اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘ بنا لیا تھا اور جن کی بات کے مقابلے میں وہ اللہ اور اس کے رسولوں کی بات کو رد کر دیا کرتے تھے۔ وہ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو حلال سمجھتے، حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھتے، یہ ان کو اللہ کے سوا رب اور اللہ کے شریک بنانا تھا۔ جن پیشواؤں نے لوگوں کو اپنی بندگی پر لگایا تھا اور جن پر عذاب کا فیصلہ ہو چکا ہو گا وہ کہیں گے اے ہمارے رب !....۔ 2۔ رَبَّنَا هٰؤُلَآءِ الَّذِيْنَ اَغْوَيْنَا....: یعنی جنھیں اللہ کے شریک بنایا گیا تھا، وہ کہیں گے، اے ہمارے رب! یہ ہیں وہ لوگ جنھیں ہم نے گمراہ کیا۔ ہم نے انھیں ویسے ہی گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے، یعنی گمراہی کی دعوت دینے والوں کی دعوت پر جس طرح ہم اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے اسی طرح ہم نے ان کے سامنے گمراہی پیش کی تو یہ اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے، نہ ہم پر کسی نے جبر کیا تھا اور نہ ہم نے ان پر کوئی زبردستی کی۔ 3۔ تَبَرَّاْنَا اِلَيْكَ: ہم ان کی گمراہی کی ذمہ داری سے بری ہیں۔ اللہ کے سوا جن کی بھی عبادت کی گئی، وہ نیک تھے یا بد، قیامت کے دن اپنی عبادت کرنے والوں سے بری ہو جائیں گے، بلکہ ان کے دشمن ہوں گے۔ دیکھیے سورۂ مریم (۸۱، ۸۲)، احقاف (۵، ۶)، عنکبوت (۲۵) اور سورۂ بقرہ (۱۶۶، ۱۶۷)۔ 4۔ مَا كَانُوْا اِيَّانَا يَعْبُدُوْنَ : کیونکہ اللہ کے سوا کسی بھی شریک کی پیروی کرنے والے یا اسے پکارنے والے درحقیقت نہ کسی موجود چیز کو پکار رہے ہیں، نہ اس کی پیروی کر رہے ہیں، کیونکہ اللہ کے کسی شریک کا وجود ہے ہی نہیں، وہ محض اپنے خیال اور گمان کی پیروی کر رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَلَا اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ وَ مَا يَتَّبِعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَآءَ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ ﴾ [ یونس : ۶۶ ] ’’سن لو! بے شک اللہ ہی کے لیے ہے جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے اور جو لوگ اللہ کے غیر کو پکارتے ہیں وہ کسی بھی قسم کے شریکوں کی پیروی نہیں کر رہے۔ وہ پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔‘‘ اس لیے جنھیں شریک بنایا گیا تھا وہ صاف کہہ دیں گے کہ یہ ہماری پرستش نہیں کرتے تھے، بلکہ محض اپنے گمان کی پرستش کیا کرتے تھے اور ہمارے بندے نہیں بلکہ اپنے نفس کے بندے بنے ہوئے تھے۔ 5۔ اس آیت میں یہ بات قابل غور ہے کہ سوال تو ان لوگوں سے ہو گا جنھوں نے شریک بنائے تھے، مگر بول وہ اٹھیں گے جنھیں شریک بنایا گیا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جب عام مشرکین سے سوال ہو گا تو پیشوا اور سردار سمجھ لیں گے کہ اب ہماری شامت آنے والی ہے، ہمارے یہ مرید اور پیروکار ضرور اپنی گمراہی کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرائیں گے، اس لیے وہ پہلے ہی اپنی صفائی پیش کرنے لگیں گے۔