وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ
اور جس دن اللہ انہیں پکارے گا (٣١) اور پوچھے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شرکاء جن کے ہونے کا تم دعوی کرتے تھے
1۔ وَ يَوْمَ يُنَادِيْهِمْ ....: یہ آیات بھی مشرکین مکہ ہی سے متعلق ہیں جو دنیوی مفادات کی خاطر شرک اور شرک کے عَلَم برداروں سے چمٹے ہوئے تھے، انھیں ان کے اس عملِ بد کے انجام سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ الفاظ عام ہونے کی وجہ سے ان کا تعلق تمام کفار سے بھی ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انھیں آواز دے کر دو سوال کریں گے، دونوں سوالوں سے مقصود پوچھنا نہیں بلکہ انھیں ذلیل کرنا اور ان کے شرکاء کے بے بس اور بے اختیار ہونے کا اظہار ہے۔ 2۔ فَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَآءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ: یہ پہلا سوال ہے جو اللہ تعالیٰ مشرکین کو آواز دے کر ان سے کریں گے کہ بتاؤ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے متعلق تم سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ تمھارے نفع یا نقصان کے مالک ہیں اور دنیوی مفادات ان کی بدولت حاصل ہو رہے ہیں، یا وہ تمھیں سفارش کر کے چھڑوا لیں گے؟ دیکھیے سورۂ انعام (۹۴)۔