وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا ۖ فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَن مِّن بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ
اور ہم نے بہت سی بستیوں کو ہلاک کیا (٢٩) جن کے رہنے والے اپنی معیشت پر اترا گئے تھے، پس ان کے بعد ان کے مکانات بہت ہی کم آباد ہوئے ہیں، اور ہم ان کے ہی وارث رہ گئے
1۔ وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ ....: ’’ بَطَرٌ‘‘ کا معنی ہے نعمت پر سرکشی اختیار کرنا، پھول جانا۔ اس کا معنی ناشکری اور انکار بھی آتا ہے۔ پہلا معنی ہو تو یہاں ’’فِيْ‘‘ محذوف ہو گا : ’’أَيْ بَطِرَتْ فِيْ مَعِيْشَتِهَا۔‘‘ حرف جار حذف ہونے سے ’’مَعِيْشَتَهَا‘‘ پر نصب آ گیا۔ جیسا کہ سورۂ اعراف (۱۵۵)میں ہے :﴿ وَ اخْتَارَ مُوْسٰى قَوْمَهٗ سَبْعِيْنَ رَجُلًا ﴾’’أَيْ مِنْ قَوْمِهِ‘‘۔ یہ ان کے عذر کا دوسرا جواب ہے، یعنی تم نے گمان کر رکھا ہے کہ ایمان لانے کی صورت میں تم تباہ و برباد ہو جاؤ گے اور ایمان نہ لائے تو تمھاری شان و شوکت، سیادت و عزت، مال و دولت اور اعلیٰ درجے کی ترقی یافتہ معیشت محفوظ رہے گی۔ سو تمھارا یہ گمان غلط ہے، تم سے پہلے کتنی ہی اقوام، جو اپنی معیشت پر اِترا گئی تھیں اور ان کے رہنے والے اپنی خوش حالی اور فارغ البالی کی بدولت بدمست ہو گئے تھے، مثلاً عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ، ہم نے انھیں ایسا ہلاک اور برباد کیا کہ ان کی بستیاں یہ تمھارے سامنے ہیں، ان میں ایسی نحوست ہے کہ ان کے بعد کوئی ان میں آباد ہی نہیں ہوا، مگر بہت کم کہ راہ چلتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے کوئی مسافر اترا اور پھر چل دیا۔ تمھیں ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ 2۔ وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ : یعنی ان میں سے کوئی باقی ہی نہیں رہا جو ان کے گھروں اور مال و دولت کا وارث بنے، فرمایا : ﴿ فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِيَةٍ ﴾ [ الحآقۃ : ۸ ] ’’تو کیا تو ان کا کوئی بھی باقی رہنے والا دیکھتا ہے؟‘‘ ان کے وارث ہم بنے اور ہر چیز کے وارث ہمیشہ ہم ہی ہوا کرتے ہیں۔ ’’ كُنَّا ‘‘ میں ’’كَانَ‘‘ استمرار اور ہمیشگی کے لیے ہے۔