وَلَوْلَا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
( اور آپ کو اس لیے بھی بھیجا گیا ہے تاکہ) اگر ان کے گناہوں کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت (23) آئے تو یہ نہ کہنے لگیں کہ اے ہمارے رب تو نے ہمارے پاس اپنا کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا تھا تاکہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ایمان لے آتے
1۔ وَ لَوْ لَا اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌ ....: یعنی عرب کے لوگوں کا کفرو شرک اور ان کی سرکشی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی پیغمبر بھیجے بغیر بھی ان پر عذاب بھیجتا تو ظلم نہ ہوتا، کیونکہ ان پر جو مصیبت آتی ان کے ہاتھوں کی کمائی ہوتی، مگر اس نے احسان فرمایا اور ان کے لیے عذر کا کوئی موقع نہیں چھوڑا کہ وہ کہہ سکیں کہ پروردگارا! تو نے ہماری طرف کوئی پیغام پہنچانے والا کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور ایمان لانے والوں میں شامل ہو جاتے۔ یہ مضمون کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اس لیے بھیجے کہ لوگوں کے پاس کفرو شرک کا کوئی عذر باقی نہ رہے، قرآن میں کئی جگہ بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۶۵)، انعام (۱۵۶، ۱۵۷)، مائدہ (۱۹) اور سورۂ فاطر (۲۴) وغیرہ۔ 2۔ ’’ وَ لَوْ لَا اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌ ‘‘ کا جواب محذوف ہے، جو سلسلہ کلام سے خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے، یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اپنے اعمالِ بد کی وجہ سے عذاب آنے پر یہ لوگ کہیں گے کہ پروردگارا! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا، ’’ لَعَجَّلْنَا لَهُمُ الْعَذَابَ‘‘ (تو ہم ان پر جلدی عذاب بھیج دیتے)، یا ’’ لَمَا أَرْسَلْنَا رَسُوْلًا‘‘ (تو ہم کوئی رسول نہ بھیجتے)۔