فَلَمَّا جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَمَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ
جب موسیٰ فرعونیوں کے پاس ہماری کھلی نشانیاں (١٧) لے کر گئے تو انہوں نے کہا یہ تو ایک گھڑا ہوا جادو ہے، اور ہم نے اپنے گزشتہ باپ دادوں کے زمانے میں ایسی کوئی بات نہیں سنی۔
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰيٰتِنَا بَيِّنٰتٍ ....: موسیٰ علیہ السلام یہ ذمہ داری لے کر وادی طویٰ سے واپس لوٹے۔ درمیان کی بات قرآن نے یہاں چھوڑ دی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے گھر آئے۔ والدین اور بھائی بہنوں سے ملاقات کی، ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا ہونے کا ماجرا سنایا، پھر دونوں بھائی فرعون اور اس کے سرداروں کو دعوت دینے کے لیے ان کے دربار میں پہنچے اور انھیں توحید الٰہی کی دعوت دی اور انھیں اللہ کی طرف سے اپنی رسالت کا اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کا حکم سنایا۔ موسیٰ علیہ السلام کی یہ دعوت سورۂ طٰہٰ (۴۷ تا ۵۴) اور شعراء (۱۶ تا۳۳) میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ جب فرعون نے ان کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا تو انھوں نے اپنی رسالت کی دلیل کے طور پر عصا اور یدِ بیضا کا معجزہ پیش کیا۔ فرعون کے پاس ان معجزوں کا کوئی جواب نہیں تھا، وہ دل سے موسیٰ علیہ السلام کے سچا نبی ہونے کو مان چکا تھا۔ دیکھیے بنی اسرائیل (۱۰۲) اور نمل (۱۴) مگر اس نے اپنی قوم کو بے وقوف بنانے کے لیے دو باتیں کہیں، ایک یہ کہ تمھارا عصا اور ید بیضا سحر مفتری ہے، یعنی تمھارا گھڑا ہوا اور بنایا ہوا جادو ہے، حقیقت اس کی کچھ نہیں۔ سورۂ اعراف (۱۰۹ تا۱۲۶)، طٰہٰ (۵۵ تا ۷۶) اور شعراء (۳۴ تا ۵۱) میں اس کے جادوگر جمع کر کے ان معجزات کے مقابلے کا اور جادوگروں کے ناکام ہو کر مسلمان ہو جانے کا ذکر گزر چکا ہے۔ دوسری بات اس نے یہ کہی کہ ہم نے توحید کی یہ دعوت اپنے پہلے آبا و اجداد میں نہیں سنی۔ فرعون کی اس بات کی بنیاد محض آبا و اجداد کی تقلید تھی، جو ان لوگوں کی دلیل ہوتی ہے جن کے پاس کوئی دلیل نہ ہو اور وہ محض ہٹ دھرمی سے کسی غلط بات پر ڈٹ جائیں۔ بھلا یہ بھی کوئی دلیل ہے کہ میں نے خسارے کا سودا کرنا ہی کرنا ہے، کیونکہ میرے باپ نے خسارے کا سودا کیا تھا۔ فرعون ہی نہیں تمام باطل پرستوں کے پاس حق کے انکار کا یہی بہانہ ہوتا ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۷۰)۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون کا یہ کہنا جھوٹ تھا کہ ہم نے اپنے پہلے آباء میں یہ بات نہیں سنی، کیونکہ اس سے پہلے مصر میں یوسف علیہ السلام گزر چکے تھے جو قید خانے میں بھی توحید کی دعوت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، جیسا کہ قریش مکہ کا یہ کہنا جھوٹ تھا کہ ہم نے اپنے آباء میں یہ بات نہیں سنی، حالانکہ ان کے آبا و اجداد میں ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام تھے جو بتوں کو توڑنے والے تھے اور توحید الٰہی کے زبردست علمبردار تھے، مگر فرعون اور قریش مکہ نے صرف ان آباء کو دلیل بنایا جو عقل و ہدایت دونوں سے خالی تھے، فرمایا : ﴿ اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَيْـًٔا وَّ لَا يَهْتَدُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۷۰ ]’’کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ ہدایت پاتے ہوں۔‘‘