فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
پس جب وہاں آئے تو وادی کے دائیں کنارے سے اس مبارک زمین میں (موجود) درخت سے انہیں پکارا گیا کہ اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں سارے جہان کارب ہوں
1۔ فَلَمَّا اَتٰىهَا نُوْدِيَ ....: ’’ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَيْمَنِ ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھے سورۂ مریم (۵۲) اور طٰہٰ (۸۰) ’’ مِنَ الشَّجَرَةِ ‘‘ جب موسیٰ علیہ السلام اس آگ کے پاس آئے تو دیکھا کہ سرسبز درخت میں آگ لگی ہوئی ہے، جس سے جلنے کے بجائے درخت مزید سرسبز اور خوب صورت دکھائی دے رہا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام حیرت سے یہ منظر دیکھ ہی رہے تھے کہ درخت میں سے آواز آئی : ’’اے موسیٰ! بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں جو رب العالمین ہے۔‘‘ 2۔ اِنِّيْ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ: دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۱۴) اللہ تعالیٰ نے یہاں موسیٰ علیہ السلام کو دو ناموں کے ساتھ اپنا تعارف کروانے کا ذکر فرمایا ہے، ایک ’’ اللّٰهُ ‘‘ جو ذاتی نام ہے، جس میں اس کی ساری صفات آ جاتی ہیں اور دوسرا ’’ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ جو اللہ کے اسماء میں سے ایسا اسم ہے جس میں اس کی وہ تمام صفات آجاتی ہیں جن کے آثار آدمی کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ سورۂ طٰہٰ میں بھی انھی دو اسماء کا ذکر ہے، جیسے فرمایا : ﴿ اِنِّيْ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ﴾ [ طٰہٰ : ۱۲ ] اور ﴿ اِنَّنِيْ اَنَا اللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا ﴾ [ طٰہٰ : ۱۴ ] یہاں بات مختصر کی ہے، سورۂ طٰہٰ میں ان اسماء کے تقاضے پر عمل کا بھی حکم دیا ہے، فرمایا : ﴿ فَاعْبُدْنِيْ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ (16) اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ اَكَادُ اُخْفِيْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا تَسْعٰى (15) فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَّا يُؤْمِنُ بِهَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ فَتَرْدٰى ﴾ [طٰہٰ : ۱۴ تا ۱۶ ] ’’سو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے، میں قریب ہوں کہ اسے چھپا کر رکھوں، تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلا دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔ سو تجھے اس سے وہ شخص کہیں روک نہ دے جو اس پر یقین نہیں رکھتا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہے، پس تو ہلاک ہو جائے گا۔‘‘ سورۂ نمل میں دو مزید صفات کا بھی ذکر ہے، فرمایا : ﴿ يٰمُوْسٰى اِنَّهٗ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ﴾ [النمل : ۹ ] ’’اے موسیٰ! بے شک حقیقت یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں، جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر ان تمام صفات کا ذکر فرمایا تھا، پھر ہر سورت میں اس کے مضمون کے مطابق ان میں سے چند صفات کا ذکر فرما دیا۔