سورة القصص - آیت 28

قَالَ ذَٰلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ ۖ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ۖ وَاللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

موسی نے کہا میرے اور آپ کے درمیان یہ بات طے پاگئی دونوں مدتوں میں سے جسے بھی پوری کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہیں ہونی چاہیے اور ہم دونوں جو بات طے کررہے ہیں اس پر اللہ گواہ ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَ ذٰلِكَ بَيْنِيْ وَ بَيْنَكَ....: موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سسر سے کہا، آپ نے جو کہا کہ میں آٹھ سال آپ کی مزدوری کروں گا، یہ میرے اور آپ کے درمیان طے ہو گیا، اب یہ میری مرضی کی بات ہے کہ آٹھ برس کے بعد دو برس اور خدمت کروں یا آٹھ ہی برس بعد اپنی بیوی کو لے کر چلا جاؤں۔ دونوں صورتوں میں آپ مجھے مجبور نہیں کریں گے کہ ابھی اور خدمت کرو۔ وَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ: یہ کلمہ عہد کو پختہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد اس بزرگ نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح موسیٰ علیہ السلام سے کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے ’’خیر‘‘ کی تمام چیزیں ان کے لیے مہیا کر دیں، جن کی انھیں ضرورت تھی۔ 3۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے اہل حیرہ کے ایک یہودی نے پوچھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے دو مدتوں میں سے کون سی مدت پوری کی تھی؟ میں نے کہا، مجھے معلوم نہیں جب تک میں عرب کے عالم کے پاس جا کر پوچھ نہ لوں۔ چنانچہ میں ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا : ’’انھوں نے وہ مدت پوری کی جو دونوں میں زیادہ اور بہتر تھی (یعنی دس سال)۔ اللہ کا رسول جب بات کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے (یعنی ایسا شخص جو آئندہ رسول بننے والا ہے، وہی مدت پوری کرے گا جو زیادہ کامل ہے)۔‘‘ [ بخاري، الشہادات، باب : ۲۶۸۴ ] یہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول ہے اور بظاہر یہ ان کا اجتہاد ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس مفہوم کی متعدد روایات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نقل کی ہیں، مگر سند کے لحاظ سے سب میں کلام ہے، اگرچہ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کے قول کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے فرمایا :’’ فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ‘‘ سے بھی یہ بات نکلتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے وہ مدت پوری کی تھی جو زیادہ کامل تھی اور جس میں ان کے سسر کے ساتھ زیادہ حسن سلوک پایا جاتا تھا، کیونکہ’’ الْاَجَلَ ‘‘ میں الف لام کا معنی کامل مدت ہے اور وہ مدت دس سال ہی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَا اِثْمَ عَلَيْهِ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَا اِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقٰى ﴾ [ البقرۃ : ۲۰۳ ] ’’پھر جو دو دنوں میں جلد چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تاخیر کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، اس شخص کے لیے جو ڈرے۔‘‘ ظاہر ہے جو شخص ایام تشریق کا تیسرا دن بھی پورا کرے وہ زیادہ کامل ہے۔ 4۔ شاہ عبدالقادر فرماتے ہیں: ’’ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وطن سے نکلے، سو آٹھ برس پیچھے آکر مکہ فتح کیا، اگر چاہتے اسی وقت شہر خالی کرواتے کافروں سے۔ دس برس پیچھے پاک کیا۔‘‘ (موضح)