وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اور خوشخبری (46) دے دیجیے ان ان لوگوں کو جو ایمان (47) لائے اور عمل صالح کیا، کہ ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں (48) جاری ہوں گی، جب جب ان باغات میں سے کوئی پھل (49) کھانے کو دیا جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی (پھل) ہے جو ہمیں اس کے قبل کھانے کو دیا گیا تھا اور ان کو ایسی روزی دی جائے گی، جو ایک دوسرے سے متشابہ ہوگی، اور ان کے لیے ان میں پاکیزہ بیویاں (50) ہوں گی، اور وہ لوگ جنتوں (51) میں ہمیشہ ہمیش کے لیے رہیں گے
1۔ کفار کو آگ سے ڈرانے کے بعد اب ایمان لانے پر جنت کی بشارت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید میں عموماً یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا :﴿ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ﴾ [ الزمر : ۲۳ ] میں صحیح ترین قول کے مطابق ”مَثَانِيَ“ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کے ساتھ اس کا مقابل بھی مذکور ہو، مثلاً ایمان کے ساتھ کفر، جنت کے ساتھ جہنم کا ذکر ہو۔ 2۔ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اقرار اور اس کے مطابق عمل کا نام ہے، یہاں ایمان پر عمل صالح کے عطف کا یہ مطلب نہیں کہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ، بلکہ ایمان کے بعد عمل صالح کا ذکر خاص طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ عموماً اس میں کوتاہی کی جاتی ہے، حالانکہ عمل سے خالی ایمان کافی نہیں ۔ اگر عطف ہی کی وجہ سے دونوں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھا جائے تو سورۂ عصر کی آیت : ﴿ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ میں مذکور چاروں چیزیں ایک دوسرے سے الگ ماننا پڑیں گی۔ تفصیل کے لیے سورۂ عصر کی تفسیر دیکھیں ۔ 3۔ عمل صالح کی پہلی شرط یہ ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ دیکھیے سورۂ کہف کی آخری آیت اور سورۂ بینہ کی آیت(۵)۔ دوسری یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ آپ کا فرمان ہے :[ مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ] ’’جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا امر نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘ [ مسلم، الأقضیۃ، باب نقض الأحکام .... : ۱۸؍ ۱۷۱۸ ] 4۔ انسان کی لذت و آسائش کی بنیادی چیزیں رہائش، کھانا پینا اور نکاح ہیں ۔ ایمان اور عمل صالح والوں کی رہائش کے لیے ﴿ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ﴾ ، کھانے پینے کے لیے ﴿كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا﴾ اور نکاح کے لیے ﴿ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ﴾ ہیں ، پھر یہ نعمتیں حاصل ہونے کے ساتھ اگر ان کے زوال کا خوف ہو تو لذت مکدر ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس خوف کو یہ کہہ کر دور کر دیا : ﴿هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ﴾ [ اللباب ] جنت کی نہروں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ محمد(۱۵) 5۔ مُطَهَّرَةٌ: باب تفعیل سے اسم مفعول ہے۔ ایک حرف کے اضافے کی وجہ سے ’’نہایت پاک صاف‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی وہ ہر قسم کی ظاہری آلائشوں ، مثلاً پیشاب، پاخانہ، تھوک، حیض وغیرہ سے اور باطنی آلائشوں مثلاً جھوٹ، حسد، کینہ وغیرہ سے پاک ہوں گی۔ 6۔ مُتَشَابِهًا: یعنی دنیا کے پھلوں کے ہم صورت ہوں گے، یا آپس میں ہم شکل ہوں گے، مگر یہ مشابہت صرف نام یا شکل میں ہو گی، ورنہ جنت کی نعمتوں کو دنیا کی نعمتوں سے کوئی نسبت ہی نہیں ۔ دیکھیے سورۂ سجدہ (۱۷)۔