وَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ
ایک شخص شہر کی دوسری طرف سے دوڑتا ہوا آیا اور کہا اے موسیٰ فرعون کے دربار والے تمہارے بارے میں آپس میں مشورہ کررہے ہیں تاکہ تمہیں قتل کردیں، اس لیے تم یہاں سے نکل جاؤ میں تمہارا خیرخواہ ہوں
1۔ وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰى ....: ادھر فرعون کے آدمی موسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لیے روانہ ہوئے، ادھر مجلس میں موجود ایک شخص فوراً شہر کے سب سے دور کنارے سے گلیوں بازاروں کے قریب ترین راستے سے دوڑتا ہوا آیا اور موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگا، موسیٰ! سردار تمھیں قتل کرنے کا مشورہ کر رہے ہیں، اس لیے فوراً یہاں سے نکل جاؤ، میں تمھارے خیر خواہوں میں سے ہوں۔ 2۔ سورۂ یٰس میں ہے : ﴿ وَ جَآءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ يَّسْعٰى ﴾ [ یٰس : ۲۰ ] جب کہ یہاں ہے : ﴿ وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰى ﴾ مفسرین نے فرمایا، ہر مقام پر وہ لفظ پہلے لایا جاتا ہے جو وہاں اہم ہوتا ہے۔ اس مقام پر اس آدمی کی مردانگی بیان کرنا اہم ہے، اس لیے ’’ رَجُلٌ ‘‘ کا لفظ پہلے ذکر فرمایا، کیونکہ فرعون کا راز فاش کرنے کے نتیجے سے آگاہ ہونے کے باوجود اس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام کو یہ اطلاع دی اور یہ کسی مرد ہی کا کام ہو سکتا تھا، پھر یہ بھی اس کی مردانگی تھی کہ بہت دور جگہ سے سرکاری دستے سے پہلے پہنچ گیا۔ 3۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ سنایا ہمارے پیغمبر کو کہ لوگ ان کی جان لینے کی فکر کریں گے اور وہ بھی وطن سے نکلیں گے، چنانچہ کافر سب اکٹھے ہوئے تھے کہ ان پر مل کر چوٹ کریں، اسی رات میں آپ وطن سے ہجرت کر گئے۔‘‘ (موضح)