سورة القصص - آیت 14

وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب موسیٰ اپنی بھرپور جوانی (٩) کو پہنچ گئے اور ان کو جسمانی نشوونما مکمل ہوگئی تو ہم نے انہیں حکمت وعلم دیا اور ہم نیک لوگوں کو اسی طرح اچھابدلہ دیا کرتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰى: یہاں ایک لمبی بات حذف کر دی گئی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے رضاعت کے ایام اپنی والدہ کے پاس گزرے، جس سے انھیں اپنے والدین، بھائی بہن اور خاندان سے شناسائی ہو گئی اور آئندہ بھی اس تعلق کی وجہ سے میل جول جاری رہا، جس سے وہ اپنے آبائے کرام ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیھم السلام اور ان کے دین سے واقف ہو گئے اور بنی اسرائیل کی زبوں حالت پر براہ راست مطلع رہنے لگے۔ رضاعت کے بعد شاہی محل میں منتقل ہونے کے ساتھ ان کی پرورش اور تربیت ایک شہزادے کی حیثیت سے ہوئی، انھیں اس وقت کے تمام علوم و فنون، لکھنے پڑھنے اور جہانبانی کے طریقے سکھائے گئے، جنگ میں درکار عام تربیت اور سپہ سالاری کے لیے خاص تربیت دی گئی۔ ان تمام چیزوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی اور تربیت تھی، جس کے ذریعے سے انھیں آنے والی ذمہ داری کے لیے تیار کیا گیا، حتیٰ کہ وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گئے۔ ’’ بَلَغَ اَشُدَّهٗ ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ یوسف (۲۲) وہاں یوسف علیہ السلام کے لیے صرف ’’ بَلَغَ اَشُدَّهٗ ‘‘ کا لفظ آیا ہے، جب کہ یہاں موسیٰ علیہ السلام کے لیے ’’ وَ اسْتَوٰى ‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے، یعنی وہ پورے طاقت ور ہو گئے، کیونکہ جسمانی قوت یوسف علیہ السلام میں موسیٰ علیہ السلام جیسی نظر نہیں آتی۔ 2۔ اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا: ’’ حُكْمًا ‘‘ کا معنی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے اور ’’ عِلْمًا ‘‘ سے مراد دنیا اور دین کا علم ہے، یعنی جوان ہونے پر ہم نے انھیں حق و باطل میں فیصلہ کرنے کی اہلیت عطا فرمائی اور دنیا و دین دونوں کا علم عطا فرمایا۔ جس میں سے دنیا کے علوم شاہی محل کے ذریعے سے حاصل ہوئے اور دین کا علم اور اس کا فہم والدہ کے گھر اور خاندان کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ بعض مفسرین نے ’’حُكْمًا وَّ عِلْمًا‘‘ سے مراد نبوت لی ہے، مگر یہاں یہ معنی درست معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ نبوت تو اس کے دس سال بعد طُور پر عطا ہوئی، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ: احسان کا معنی نیک کام کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی تفسیر’’ أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ‘‘ کے ساتھ فرمائی ہے کہ ’’اللہ کی عبادت ایسے کرنا گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پھر اگر اُسے نہیں دیکھتے تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ [دیکھیے بخاري، الإیمان، باب سؤال جبریل....: ۵۰ ] احسان کا ایک معنی یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی معاوضہ کی طلب یا خواہش کے بغیر کسی کے ساتھ نیکی کرنا، جیسا کہ بنی اسرائیل کے نیک لوگوں نے قارون کو نصیحت کی تھی : ﴿ وَ اَحْسِنْ كَمَا اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ﴾[القصص:۷۷] ’’اور احسان کر جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے۔‘‘ فرمایا : ’’ہم محسنین کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں‘‘ اس سے معلوم ہوا موسیٰ علیہ السلام احسان کی صفت سے پوری طرح آراستہ تھے، جس کی جزا میں اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم و علم عطا فرمایا۔