سورة النمل - آیت 91

إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

مجھے تو صرف یہ حکم (٣٦) دیا گیا ہے اس شہر مکہ کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرام بنادیا ہے اور ہر چیز کا مالک وہی ہے اور مجھے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان بن کررہوں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّمَا اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ ....: اس آیت میں قریشِ مکہ پر چوٹ ہے کہ تم لوگ جو اس شہر میں رہتے ہو جسے اللہ تعالیٰ نے حرمت والا اور جائے امن قرار دیا ہے، جہاں نہ کسی کو قتل کیا جاتا ہے، نہ کسی پر ظلم ہوتا ہے، نہ اس میں شکار کی اجازت ہے، نہ اس کے درخت کاٹنے کی، جس کی وجہ سے تم بے شمار فوائد اٹھا رہے ہو۔ اللہ کے گھر کے متولی ہونے کی وجہ سے ساری دنیا میں تمھاری عزت اور تمھارا وقار قائم ہے۔ سارے عرب میں کسی کی جان اور مال محفوظ نہیں، لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے، ان کے اموال لوٹ لیے جاتے ہیں، مگر بیت اللہ کی وجہ سے مکہ میں بھی تمھیں اس کی نعمت میسر ہے اور ہر جانب سے وافر رزق تمھیں پہنچتا ہے۔ سردی میں یمن کی طرف اور گرمی میں شام کی طرف تمھارے تجارتی قافلے جاتے ہیں۔ کعبہ کے احترام کی وجہ سے کوئی انھیں لوٹنے کی جرأت نہیں کرتا۔ تم بھی مانتے ہو کہ یہ سب کچھ اس گھر کے رب کی وجہ سے ہے، ان بتوں کی وجہ سے نہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ تمھارا حق تو یہ تھا کہ تم اس شہر کے رب کی عبادت کرتے جس نے تمھیں بھوک میں کھانا اور خوف میں امن عطا کیا، فرمایا : ﴿ فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ (3) الَّذِيْ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ ﴾ [ القریش : ۳، ۴ ] ’’تو ان پر لازم ہے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔ وہ جس نے انھیں بھوک سے ( بچا کر) کھانا دیا اور خوف سے (بچا کر) امن دیا۔‘‘ فرمایا، ان سے کہہ دو تم ان نعمتوں کی ناشکری کرتے ہوئے غیراللہ کی عبادت کرتے ہو تو تمھاری مرضی، مجھے تو یہی حکم ہے کہ میں اس گھر کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: (( إِنَّ هٰذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللّٰهُ، لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا )) [بخاري، الحج، باب فضل الحرم ....: ۱۵۸۷ ] ’’اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا، نہ اس کے کانٹے والے درخت کاٹے جائیں اور نہ اس کے شکار کو ڈرایا جائے اور نہ اس میں کوئی گری ہوئی چیز اٹھائے، مگر جو اس کا اعلان کرتا رہے۔‘‘ وَ لَهٗ كُلُّ شَيْءٍ: یہ لفظ اس لیے فرمایا کہ کوئی شخص یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت صرف اس لیے ہے کہ وہ شہر مکہ کا رب ہے، اس لیے ساتھ ہی فرمایا کہ ہر چیز کا مالک بھی وہی ہے، اس لیے مجھے اس کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۱۶۱ تا ۱۶۳)۔