أَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کیا وہ دیکھتے نہیں ہم نے رات (٣٣) اس لیے بنائی ہے کہ تاکہ وہ اس میں آرام کریں اور دن کو روشن بنایا ہے بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ایماندار ہیں
اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْهِ ....: حشر کا ذکر فرمایا تو اس کی دلیل کے طور پر رات کی نیند اور ظلمت کا ذکر فرمایا، جو ایک طرح کی موت ہے اور دن کی بیداری اور اجالے کا ذکر فرمایا، جو زندگی ہے۔ (دیکھیے زمر : ۴۲) یعنی کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ موت و حیات کا یہ سلسلہ ہر روز ان کے مشاہدے میں آتا ہے، بلکہ خود ان کی ذات پر گزرتا ہے، جس میں ان کے لیے سکون اور تلاش رزق کی نعمتیں بھی موجود ہیں۔ صرف یہ دو نشانیاں ہی ان لوگوں کے لیے کافی ہیں جو قیامت پر ایمان لانا چاہتے ہیں۔