سورة النمل - آیت 66

بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا ۖ بَلْ هُم مِّنْهَا عَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم یکسر عاجز (٢٣) ہے بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں بلکہ اس سے اندھے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ:’’ ادّٰرَكَ ‘‘ اصل میں ’’ تَدَارَكَ‘‘ ہے، جو باب تفاعل سے ماضی کا صیغہ ہے۔ اس کا مادہ ’’درك‘‘ ہے، اسی سے ’’ادّٰرَكَ ‘‘ بنا ہے، کسی چیز کو پا لینا۔ ’’تَدَارَكَ‘‘ کا معنی ہے کسی چیز کو پکڑنے کے لیے لگا تار دوڑنا، بھاگ کر پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کرنا۔ یہاں مراد یہ ہے کہ آخرت کو جاننے کے لیے ان کا علم لگاتار دوڑتا ہی رہا، مگر اسے حاصل نہ کر سکا، آخر تھک ہار کر رہ گیا۔ ’’غَابَ‘‘ گم ہو گیا، ’’اِنْتَهٰي‘‘ ختم ہو گیا۔ ’’ ادّٰرَكَ ‘‘ کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں، ان میں سے سب سے صحیح یہی قول ہے، کیونکہ طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابو طلحہ کے واسطے سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے : ’’ ﴿ بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ ﴾ يَقُوْلُ غَابَ عِلْمُهُمْ‘‘ [ طبري : ۲۷۲۹۲ ] یعنی ’’ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ ‘‘ کا معنی ہے آخرت کے بارے میں ان کا علم گم ہو گیا۔ 2۔ ’’ عَمُوْنَ ‘‘ ’’عَمِيٌ‘‘ (بروزن فَرِحٌ ) کی جمع ہے، مراد دل کے اندھے ہیں۔ 3۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اللہ کے سوا آسمان و زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ظاہر ہے اس میں مشرکین کے بنائے ہوئے معبودوں کے ساتھ انبیاء و صحابہ سب شامل ہیں کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ اس کے بعد سلسلۂ کلام عام کفار و مشرکین کی طرف پھر گیا ہے، جو قیامت کے منکر تھے، ان کے متعلق تین دفعہ لفظ ’’ بَلْ ‘‘ کے ساتھ تین باتیں فرمائیں، بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم گم ہو گیا ہے، انھیں اس کے وقوع کے وقت کے متعلق کچھ علم نہیں، بلکہ انھیں قیامت کے واقع ہونے ہی میں شک ہے۔ قیامت کی فکر تو وہ کرے گا جسے اس کے حق ہونے کا یقین ہو، بلکہ یہ جان بوجھ کر اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں، پیغمبر کی بات پر اور قیامت کے حق ہونے کے دلائل پر غور تک کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ اس سے انھیں اللہ کے سامنے پیش ہونے اور حساب دینے پر یقین کرنا پڑتا ہے، جس کے بعد وہ اپنی خواہش پرستی اور من مانی نہیں کر سکتے، اس لیے قیامت کے انکار کا بہانہ یہ بنائے رکھتے ہیں کہ بتاؤ وہ قیامت کب قائم ہو گی؟ جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَا اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ (1) وَ لَا اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ (2) اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ (3) بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰى اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ (4) بَلْ يُرِيْدُ الْاِنْسَانُ لِيَفْجُرَ اَمَامَهٗ (5) يَسْـَٔلُ اَيَّانَ يَوْمُ الْقِيٰمَةِ ﴾ [ القیامۃ : ۱ تا ۶ ] ’’نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں! اور نہیں، میں بہت ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں! کیا انسان گمان کرتا ہے کہ بے شک ہم کبھی اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے۔ کیوں نہیں؟ (ہم انھیں اکٹھا کریں گے) اس حال میں کہ ہم قادر ہیں کہ اس (کی انگلیوں) کے پورے درست کر (کے بنا) دیں۔ بلکہ انسان چاہتا ہے کہ اپنے آگے (آنے والے دنوں میں بھی) نافرمانی کرتا رہے۔ وہ پوچھتا ہے اٹھ کھڑے ہونے کا دن کب ہو گا؟‘‘