سورة النمل - آیت 62

أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یاوہ ذات بہتر ہے جسے پریشان حال جب پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار کا جواب دیتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردتیا ہے اور تمہیں زمین میں جانشیں بناتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی کام یہ کرتا ہے لوگوں تم بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ ....: اس سے پہلے آفاق میں پائی جانے والی چیزوں کا ذکر تھا، جنھیں مشرکین بھی مانتے تھے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں، اب خود انسان کی ذات میں پائی جانے والی چند چیزوں کا ذکر ہے۔ ان میں سے پہلی یہ ہے کہ کیا تمھارے معبود بہتر ہیں یا وہ ذات پاک کہ جب تمام سہارے جواب دے جاتے ہیں اور تمھاری مجبوری اور بے چارگی آخری حد کو پہنچتی ہے تو تم بے اختیار اسے پکارتے ہو اور وہ تمھاری فریاد سنتا اور اسے قبول کرتا ہے؟ ظاہر ہے اس کا جواب ان کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں کہ یقیناً وہی بہتر ہے۔ مشرکین عرب خود اس بات کو جانتے اور مانتے تھے کہ مصیبت کو ٹالنے والا حقیقت میں اللہ ہی ہے اور یہ بات صرف مشرکین عرب تک ہی محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر کے مشرکین کا عام طور پر یہی حال ہے، کیونکہ یہ بات انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے، حتیٰ کہ روس کے دہریے، جو اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں اور جنھوں نے باقاعدہ اللہ کے وجود اور اس کی عبادت کے خلاف مہم چلا رکھی ہے، ان پر بھی جب گزشتہ جنگ عظیم میں جرمن فوجوں کا نرغہ سخت ہو گیا، تو انھیں اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی ضرورت محسوس ہو گئی تھی۔ اس لیے قرآن مجید یاد دلاتا ہے کہ جب تم پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو تم اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگتے ہو، مگر جب وہ وقت ٹل جاتا ہے تو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو۔ دیکھیے سورۂ انعام (۴۰، ۴۱)، یونس (۲۱، ۲۲)، نحل (۵۳ تا ۵۵) اور بنی اسرائیل (۶۷) یہ حال مشرکین اور منکرین کا تھا، مگر تعجب ہمارے زمانے کے ان مسلمانوں پر ہے جو توحید کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن مصیبت تک میں اللہ کو نہیں پکارتے، بلکہ یا رسول اللہ! یا غوث اعظم! یا معین الدین اجمیری! کشتی پار کر دے، جیسے نعرے لگاتے ہیں ۔ وَ يَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ: زمین کا جانشین بنانا دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ وہ تمھیں ایک نسل کے بعد دوسری نسل کی صورت میں زمین میں لاتا ہے۔ اگر ایک ہی وقت میں سب کو پیدا کر دیتا تو زمین تنگ ہو جاتی، رشتہ داریوں اور تعلقات کا سلسلہ قائم نہ ہو سکتا، سب لوگ باقی رہنے کی کوشش میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہتے، پھر یا تو ہر ایک کو صدیوں زمین پر جینا پڑتا، جہاں کوئی خوشی خالص نہیں ہے، یا چند ہی سالوں میں زمین کی آبادی کا یہ سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچ جاتا۔ زمین کے جانشین بنانے کی دوسری صورت یہ ہے کہ وہ تمھیں ایک دوسرے کے بعد زمین میں سلطنت عطا کرتا ہے۔ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ: ’’ قَلِيْلًا ‘‘ کا معنی ہے ’’بہت کم۔‘‘ ’’ مَا ‘‘ کے ساتھ اس کی تاکید سے معنی ہو گیا ’’بہت ہی کم۔‘‘ یعنی پوری طرح نصیحت حاصل کرتے تو اللہ کے ساتھ شریک نہ بناتے۔