فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَاهَا مِنَ الْغَابِرِينَ
پس ہم نے اہیں اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا، سوائے ان کی بیوی کے جس کے لیے ہم نے پیچھے رہنے والوں کے ساتھ رہ جانا مقدر کردیا تھا۔
1۔ فَاَنْجَيْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ....: اس کی تفصیل سورۂ ہود (۸۱ تا ۸۳) میں ملاحظہ فرمائیں۔ اس سورت میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد تین انبیاء سلیمان، صالح اور لوط علیھم السلام کے حالات کا ذکر ہوا ہے اور ان کے حالات میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں مشابہت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور پایا جاتا ہے۔ مثلاً سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو پیغام بھیجا تھا کہ اگر تم مطیع فرمان بن کر حاضر ہو جاؤ تو بہتر، ورنہ ہم ایسے لشکر سے تم پر حملہ کریں گے جس کے مقابلے کی تم تاب نہ لا سکو گے۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین مکہ پر ایسا ہی لشکر لائے تھے۔ صالح علیہ السلام کو ان کی قوم نے بلوے کی صورت میں شب خون مار کر قتل کرنا چاہا، لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں نجات دے دی۔ قریشِ مکہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سلوک کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی سازش سے بال بال بچا لیا۔ لوط علیہ السلام کی قوم کو ان کی قوم نے شہر سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں، جب کہ قریش مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عملاً شہر سے نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ (کیلانی) 2۔ ابو حیان اندلسی نے فرمایا کہ لوط علیہ السلام کے قصے سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ پورے قرآن میں لوط علیہ السلام کے انھیں اس بے حیائی سے روکنے ہی کا ذکر ہے، توحید کی دعوت کا ذکر نہیں، اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوں، لیکن اس برے کام کی ایجاد اور اپنے رسول کو جھٹلانے کی وجہ سے ان پر عذاب آیا ہو، جیسا کہ سورۂ شعراء میں ہے : ﴿ كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍ المُرْسَلِيْنَ﴾ [ الشعراء : ۱۶۰ ]’’لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔‘‘ یا یہ وجہ ہے کہ وہ تھے تو مشرک لیکن جب لوط علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ بہیمیت میں بلکہ اس سے بھی نیچے درجے میں گر چکے ہیں، تو ضروری سمجھا کہ پہلے انھیں انسانیت کے رتبے کی دعوت دی جائے، پھر توحید کی دعوت دی جائے۔ (البحر المحیط)