سورة النمل - آیت 55

أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا تم لوگ شہوت پوری کرنے کے لیے عورتوں کے بجائے مردوں کے پاس جاتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ جہالت میں ڈوبے ہوئے ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً ....: ہمزہ استفہام کے بعد ’’إِنَّ‘‘ اور لام کے ساتھ تاکید کا مطلب تعجب کا اظہار ہے کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے کہ تم وہ کام کرتے ہو جو کسی صحیح الفطرت آدمی کے خیال میں بھی نہیں آتا۔ 2۔ پچھلی آیت میں صرف فاحشہ کا ذکر کیا تھا، اب مذمت کی مزید تاکید کے لیے ان کے فعل بد کی تصریح فرمائی کہ تم پاک دامنی اور اولاد کے حصول کے لیے بیویوں کے پاس جانے کے بجائے محض شہوت رانی کے لیے مردوں کے پاس جاتے ہو اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ شہوت پوری کرنے کے لیے عورتیں کافی نہیں بلکہ تم ایسے لوگ ہو جو علم کے بجائے جہل کے اسیر ہو اور اس فعل بد کے انجام سے جاہل ہو کہ دنیا اور آخرت میں اس کا وبال کتنا خوف ناک ہے۔ دنیا میں چند ہی سالوں میں تمھاری نسل ختم ہو جائے گی اور تمھاری عورتوں میں بدکاری پھیل جائے گی۔ جہالت کا ایک معنی سفاہت اور حماقت بھی ہے، کوئی گالی گلوچ اور بے ہودہ حرکتیں کرنے لگے تو کہتے ہیں، وہ جہالت پر اتر آیا ہے، جیسے فرمایا : ﴿ وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ﴾ [الفرقان : ۶۳ ] ’’اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ مردوں کے پاس جانا تمھاری کوئی حقیقی ضرورت نہیں، محض سفاہت و حماقت ہے جس کی وجہ سے تم یہ کام کر رہے ہو۔