وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
اور انہوں نے ایک چال چلی، اور ہم نے بھی ایک تدبیر کی، اور انہیں اس کا احساس نہیں ہونے دیا۔
وَ مَكَرُوْا مَكْرًا وَّ مَكَرْنَا مَكْرًا ....: ان کی چال تو وہ منصوبہ تھا جس پر انھوں نے آپس میں قسمیں کھائیں اور اللہ تعالیٰ کی چال یہ تھی کہ اس نے دوسرے انبیاء کی طرح صالح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا۔ ان کے نکلنے کی دیر تھی کہ اس شہر بلکہ قومِ ثمود کے پورے علاقے میں شدید زلزلے کا عذاب آیا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ ﴾ [ الأعراف : ۷۸ ] ’’تو انھیں زلزلے نے پکڑ لیا۔‘‘ جس کے ساتھ خوف ناک چیخ کی آواز بھی تھی، فرمایا : ﴿ وَ اَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ ﴾ [ ھود : ۶۷۔القمر : ۳۱ ] ’’اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا انھیں چیخ نے پکڑ لیا۔‘‘ جس سے ان کی بستیاں برباد ہو گئیں اور وہ نو (۹) بدمعاش اور ان کی قوم کے لوگ سب ہلاک ہو گئے۔