قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ ۚ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ ۖ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ
انہوں نے کہا ہم نے تو تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے بدشگونی لی ہے صالح نے کہا تمہاری نحوست اللہ کی طرف سے ہے بلکہ تمہیں آزمایا جارہا ہے۔
1۔ قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ ....: ’’ اطَّيَّرْنَا ‘‘ اصل میں ’’تَطَيَّرْنَا‘‘ ہے، (ہم نے بدشگونی لی) تاء کو ساکن کرکے طاء میں ادغام کیا اور پہلا حرف ساکن ہو جانے کی وجہ سے شروع میں ہمزہ وصلی کا اضافہ کر دیا۔ ادغام کی وجہ سے بدشگونی کے معنی میں شدت کا اظہار ہو رہا ہے۔ صالح علیہ السلام کو جھٹلانے والوں نے کہا کہ ہم نے تمھارے اور تمھارے ساتھیوں کے ساتھ بدشگونی پکڑی ہے اور تمھیں منحوس ہی پایا ہے کہ آئے دن ہم پر آفات و مصائب کا ہجوم رہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کا باعث تم اور تمھارے ساتھی ہیں۔ آل فرعون پر جب مختلف عذاب آئے تو انھوں نے بھی یہی بات کہی تھی : ﴿ فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ ﴾ [ الأعراف : ۱۳۱ ] ’’تو جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے یہ تو ہمارے ہی لیے ہے اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔‘‘ سورۂ یٰس میں مذکور بستی کے لوگوں نے بھی اپنے رسولوں سے یہی کہا تھا : ﴿ اِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَ لَيَمَسَّنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ﴾ [ یٰسٓ : ۱۸ ] ’’بے شک ہم نے تمھیں منحوس پایا ہے، یقیناً اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور ہی تمھیں سنگسار کر دیں گے اور تمھیں ہماری طرف سے ضرور ہی دردناک عذاب پہنچے گا۔‘‘ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کفار ایسے ہی کہتے تھے : ﴿ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ فَمَالِ هٰؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا ﴾ [ النساء : ۷۸] ’’ اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔‘‘ 2۔ قَالَ طٰٓىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۳۱) کی تفسیر۔ 3۔ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ: یعنی تمھارے مصائب کا سبب ہمارا منحوس ہونا نہیں، بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ اب تمھارا امتحان شروع ہے کہ تم آفات و مصائب سے سبق حاصل کرکے ایمان قبول کرتے ہو یا کفر پر جمے رہتے ہو۔