وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِينَ
اور اسے ایمان لانے سے اب تک اس بات نے روک رکھا تھا کہ وہ اللہ کے سوا غیروں کی عبادت کرتی تھی، وہ بیشک کافروں میں سے تھی۔
وَ صَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ ....: یعنی اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود اسے ایمان لانے سے روکا تو آفتاب نے جسے وہ اللہ کے سوا معبود بنا بیٹھی تھی اور اسے چھوڑنے پر تیار نہ تھی اور اس کے سورج پرستی پر جمے رہنے کی وجہ بھی اس کی ہٹ دھرمی نہ تھی، بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ کافر قوم سے تھی اور اپنی قوم کے رسم و رواج کو ترک کرنا اس کے لیے مشکل تھا۔ یہ ترجمہ ’’مَا‘‘ موصولہ کی صورت میں ہے۔ ’’ مَا ‘‘ مصدریہ کی صورت میں ترجمہ یہ ہو گا : ’’اور اسے (ایمان لانے سے) روکا تو اس عبادت نے جو وہ اللہ کے سوا معبودوں کی کرتی تھی۔‘‘ بعض اہلِ علم نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے : ’’سلیمان علیہ السلام نے اسے ان چیزوں سے روک دیا جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتی تھی۔‘‘ حافظ ابن کثیر اور دوسرے ائمہ نے اس معنی کے بجائے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے، کیونکہ ملکہ سبا نے شیشے کے ملائم فرش کو پانی سمجھنے کی غلطی پر متنبہ ہونے کے بعد ایمان قبول کیا، اس سے پہلے وہ اپنی قوم کے رسم و رواج پر قائم تھی۔