سورة النمل - آیت 22

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ اس نے آکر کہا، مجھے وہ خبر معلوم ہوئی ہے جو آپ کو نہیں معلوم ہے، اور شہر سبا کی ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ....: احاطہ کا معنی کسی چیز کا پورا علم اور مکمل معلومات ہوتا ہے۔ ہُد ہُد کو بھی فکر تھی کہ غیر حاضری کی کیا سزا ہو سکتی ہے، اس لیے وہ تھوڑی ہی دیر میں حاضر ہو گیا اور اپنی غیر حاضری کا عذر بیان کرنے لگا۔ سب سے پہلے اس نے سلیمان علیہ السلام کے دل میں اس خبر کا تجسس اور شوق پیدا کیا جو وہ سنانے چلا تھا، چنانچہ اس نے کہا کہ میں نے اس بات کی مکمل معلومات حاصل کر لی ہیں جس کی مکمل معلومات آپ کے پاس نہیں اور میں سبا سے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ سلیمان علیہ السلام کو سبا کے پورے حالات معلوم نہ تھے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ’’سلیمان علیہ السلام کو اس ملک کا حال مفصل نہ پہنچا تھا، اب پہنچا۔‘‘ (موضح) یہاں ایک سوال ہے کہ اتنی عظیم الشان سلطنت کے باوجود سلیمان علیہ السلام کو سبا اور یمن کا علم کیوں نہ ہوا؟ جواب یہ ہے کہ یہ بات درست نہیں کہ سلیمان علیہ السلام کو یمن کا علم نہ تھا، بات صرف یہ ہے کہ وہ دوسرے علاقوں کے معاملات میں مصروفیت کی وجہ سے اس کی طرف پوری توجہ نہیں کر سکے تھے۔ اس لیے ہُد ہُد نے جو چشم دید حالات بیان کیے، وہ اس سے پہلے انھیں معلوم نہیں ہو سکے تھے۔ ہُد ہُد نے بھی احاطہ علم کی نفی کی ہے، علم کی نفی نہیں کی۔ اس کے علاوہ ہُد ہُد نے عورت کے حکمران ہونے اور اس کی اور اس کی قوم کی آفتاب پرستی کو زیادہ نمایاں کیا، کیونکہ اس کے نزدیک ان میں سے کوئی بات بھی قابل برداشت نہیں تھی۔ 3۔ سلیمان علیہ السلام وہ عظیم پیغمبر تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا دَاؤدَ وَ سُلَيْمٰنَ عِلْمًا ﴾ [ النمل : ۱۵ ] ’’ اور بلاشبہ یقیناً ہم نے داؤد اور سلیمان کو ایک علم دیا۔‘‘ ان کے مقابلے میں علمی لحاظ سے ہُد ہُد کی کوئی حیثیت نہ تھی، اس کے باوجود ہُد ہُد نے دعوے سے کہا کہ میں نے اس بات کا احاطہ کیا ہے جس کا آپ نے احاطہ نہیں کیا۔ سلیمان علیہ السلام اس پر نہ ناراض ہوئے، نہ اسے گستاخ قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا ایک کم مرتبہ شخص کو کوئی ایسی بات معلوم ہو سکتی ہے جو اس سے عالی مرتبے والے کو معلوم نہ ہو، مثلاً یہ مسئلہ کہ اجازت تین دفعہ مانگی جاتی ہے، اس کے بعد واپس چلے جانا چاہیے، عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھا، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا۔ [ دیکھیے أبوداؤد : ۵۱۸۰ ] جنابت کے لیے تیمم کا مسئلہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنھما کو یاد رہا، عمر اور ابن مسعود رضی اللہ عنھما کے ذہن میں نہ رہا۔ چنانچہ وہ جنبی کے لیے تیمم کے قائل نہیں تھے۔ [ دیکھیے بخاري : ۳۴۶، ۳۴۷ ] وہ درخت جو مسلم کی مانند ہے، ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے دوسرے حاضرین کے ذہن میں نہ آیا، ابن عمر رضی اللہ عنھما کے ذہن میں آ گیا۔ [ دیکھیے بخاري : ۶۱ ] صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے : (( أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی يَشْهَدُوْا أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ يُقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوا الزَّكَاةَ )) یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنھما کو معلوم تھی، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما کو معلوم نہ تھی۔ اس پر حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں : ’’اس قصے میں دلیل ہے کہ سنت بعض اوقات اکابر صحابہ سے مخفی رہ جاتی ہے اور دوسرے صحابہ اس پر مطلع ہو جاتے ہیں، اس لیے آراء کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی، خواہ وہ کتنی قوی ہوں، جب ان کے خلاف سنت موجود ہو اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ سنت فلاں سے کیسے مخفی رہ گئی؟‘‘ (واللّٰہ الموفق) [ فتح الباري، الإیمان، باب : ﴿فإن تابوا و أقاموا الصلاۃ....﴾ ، تحت ح : ۲۵ ] 4۔ فروہ بن مُسَیْک مرادی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سبا کے بارے میں آیات نازل ہوئیں، (جیسے سبا : ۱۵) تو ایک آدمی نے کہا : ’’یا رسول اللہ! یہ سبا کیا ہے، کوئی زمین ہے یا کوئی عورت ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَيْسَ بِأَرْضٍ وَلَا امْرَأَةٍ وَلٰكِنَّهُ رَجُلٌ وَلَدَ عَشْرَةً مِنَ الْعَرَبِ، فَتَيَامَنَ مِنْهُمْ سِتَّةٌ وَ تَشَاءَمَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ، فَأَمَّا الَّذِيْنَ تَشَاءَمُوْا : فَلَخْمٌ وَ جُذَامٌ وَ غَسَّانُ وَ عَامِلَةُ، وَ أَمَّا الَّذِيْنَ تَيَامَنُوْا فَالْأَزْدُ وَالْأَشْعَرِيُّوْنَ وَحِمْيَرٌ وَكِنْدَةُ وَمَذْحِجٌ وَأَنْمَارٌ، فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! وَمَا أَنْمَارُ؟ قَالَ : الَّذِيْنَ مِنْهُمْ خَثْعَمٌ وَبَجِيْلَةُ )) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ سبا : ۳۲۲۲، قال الألباني صحیح حسن ] ’’نہ وہ زمین ہے نہ عورت، بلکہ عرب کا ایک آدمی تھا جس کے ہاں دس بچے پیدا ہوئے، ان میں سے چھ یمن میں چلے گئے اور چار شام کو چلے گئے۔ جو لوگ شام میں گئے تھے وہ یہ ہیں : لخم، جذام، غسان اور عاملہ اور جو یمن میں گئے تھے وہ یہ ہیں : ازد، اشعرون، حمیر، مذحج اور انمار۔‘‘ اس نے پوچھا : ’’یا رسول اللہ! انمار سے مراد کون ہیں؟‘‘ فرمایا : ’’وہی جن میں سے خثعم اور بجیلہ ہیں۔‘‘ بعد میں اس قوم کا اور یمن کے اس شہر کا نام بھی سبا پڑ گیا، جیسا کہ اس آیت میں ہے۔ یہ شہر یمن کے موجودہ دار الحکومت صنعاء سے تقریباً پچیس میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ 5۔ یہاں ایک لطیف نکتہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام نبی تھے، مگر یہ ’’ نَبَأٌ ‘‘ (خبر) ان کے پاس نہ تھی۔ ہد ہد نبی نہ تھا، مگر یہ ’’ نَبَأٌ ‘‘ (خبر) اس کے پاس تھی۔ معلوم ہوا نبی کے پاس ہر ’’ نَبَأٌ‘‘ نہیں ہوتی، نہ وہ عالم الغیب ہوتا ہے، بلکہ اس کے پاس صرف اتنی ’’ نَبَأٌ ‘‘ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ اسے بتا دے اور صرف کسی ’’ نَبَأٌ ‘‘ سے کوئی شخص نبی نہیں بن جاتا، جب تک اسے وحی الٰہی سے خبر نہ دی جاتی ہو۔ (الشیخ محمد حسین شیخوپوری رحمہ اللہ ) 6۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حکمران کو حالات سے باخبر رہنے کے لیے تمام اطراف میں جاسوس مقرر کرنے ضروری ہیں۔