إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ
سوائے ان لوگوں کے جو ایمان (٦٠) لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا اور اللہ کو خوب یاد کیا، اور ان پر ظلم ہوا تو صرف بدلہ لے لیا، اور عنقریب ظلم کرنے والے جان لیں گے کہ وہ کس انجام کو پہنچیں گے۔
1۔ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ....: شعراء کی مذمت کے بعد ان میں سے ایسے لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا جن میں چار اوصاف پائے جائیں، پہلا وصف یہ کہ وہ مومن ہوں۔ دوسرا یہ کہ وہ صالح اعمال کے حامل ہوں، فاسق و فاجر اور بدکار نہ ہوں۔ تیسرا یہ کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہوں، اپنی عام زندگی میں بھی اور اپنے اشعار میں بھی۔ ایسا نہ ہو کہ زبانی تسبیح و تہلیل اور اذکار پر تو بہت زور ہو مگر اشعار میں اللہ کی یاد کے بجائے عشق و ہوس اور فضول باتوں کا تذکرہ ہو۔ چوتھا وصف یہ کہ وہ اپنے کلام سے ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کا کام لیتے ہوں اور کفار و مشرکین اسلام، مسلمانوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو بد زبانی کریں ان کا دندان شکن جواب دیں۔ ایسے موقع پر وہ زبان سے وہ کام لیتے ہیں جو میدان جنگ میں مجاہد تیر و تلوار سے لیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اُهْجُوْا قُرَيْشًا فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ )) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضائل حسان بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ : ۲۴۹۰ ] ’’قریش کی ہجو کرو، کیونکہ وہ ان پر تیروں کے چھیدنے سے بھی سخت ہے۔‘‘ اور اس حدیث کے آخر میں ہے، عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ حسان رضی اللہ عنہ سے کہہ رہے تھے : (( إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِّدُكَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ )) ’’روح القدس تیری مدد کرتا رہتا ہے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتا رہے۔‘‘ اور فرماتی ہیں کہ میں نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( هَجَاهُمْ حَسَّانُ فَشَفٰی وَ اشْتَفٰی)) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضائل حسان بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ : ۲۴۹۰ ] ’’حسان نے ان کی ہجو کی اور شفا دی اور شفا پائی۔‘‘ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’یا رسول اللہ! آپ کی شعر کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُجَاهِدُ بِسَيْفِهِ وَلِسَانِهِ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ لَكَأَنَّمَا تَنْضَحُوْنَهُمْ بِالنَّبْلِ )) [صحیح ابن حبان : ۴۷۰۷، قال المحقق إسنادہ علی شرط الشیخین ] ’’مومن اپنی تلوار اور اپنی زبان کے ساتھ جہاد کرتا ہے، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! گویا تم انھیں تیروں کے ساتھ چھیدتے ہو۔‘‘ آیت سے ظاہر ہے کہ شعر کی دو حالتیں ہیں، ایک وہ جس کی مذمت آئی ہے، دوسری وہ جس کی اجازت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَةً )) [ ابن ماجہ، الأدب، باب الشعر : ۳۷۵۵ ، و قال الألباني صحیح ] ’’بعض شعر حکمت سے بھرے ہوتے ہیں۔‘‘ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( الشِّعْرُ بِمَنْزِلَةِ الْكَلَامِ حَسَنُهُ كَحَسَنِ الْكَلَامِ وَ قَبِيْحُهُ كَقَبِيْحِ الْكَلَامِ )) [ سنن الدار قطني :5؍274، ح : ۴۳۰۸ ]’’شعر کلام کی طرح ہے، سو اس میں سے جو اچھا ہے وہ اچھے کلام کی طرح ہے اور جو اس میں سے برا ہے وہ برے کلام کی طرح ہے۔‘‘ 2۔ وَ سَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا....: ظلم کرنے والوں سے مراد وہ کفار و مشرکین ہیں جنھوں نے ایمان قبول نہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور ضد اور ہٹ دھرمی سے اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر، کاہن اور شاعر کہہ کر جھٹلاتے رہے۔ فرمایا، یہ لوگ جلد ہی جان لیں گے کہ ان کا کیا انجام ہونے والا ہے آخرت میں اور دنیا میں بھی۔ ان الفاظ میں کفار کے لیے بہت سخت وعید ہے۔ [ اَللّٰھُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُوْرِ کُلِّھَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْیَا وَ عَذَابِ الْآخِرَۃِ ]