وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ
اور جو نہیں کرتے اس کا دعوی کرتے ہیں۔
وَ اَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ : یہ شاعروں کی تیسری خصوصیت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل کی عین ضد تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاننے والا ہر شخص جانتا تھا کہ آپ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں، دوست دشمن سب کا اتفاق تھا کہ آپ کے قول و فعل میں تضاد نہیں، جب کہ شاعروں کے متعلق ہر شخص جانتا ہے کہ ان کے کہنے کی باتیں اور ہوتی ہیں، کرنے کی اور ۔ شعر پڑھو تو معلوم ہو گا کہ شیر سے زیادہ بہادر ہیں مگر پرلے درجے کے بزدل ہوں گے، سخاوت کا مضمون ایسا باندھیں گے کہ آدمی سمجھے ان سے بڑا سخی کوئی نہیں جب کہ واقع میں سخت کنجوس ہوں گے، زہد و قناعت اور خود داری کا بلند بانگ دعویٰ کریں گے جب کہ حرص و طمع میں ذلت کی آخری حد کو پار کر رہے ہوں گے۔ مرزا غالب نے اپنا حال خود ہی بیان کر دیا ہے: یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا حالی نے مسدس میں اپنے زمانے کے شاعروں کا خوب نقشہ کھینچا ہے. برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے گنہ گار واں چھوٹ جائیں گے سارے عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے ان اشعار میں حالی نے شاعروں کی مذمت کرتے ہوئے دوسرے تمام گناہ گاروں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ دے دیا، یہ اس شاعری ہی کا نتیجہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے مذمت فرمائی ہے ۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَأَنْ يَّمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَيْحًا يَرِيْهِ خَيْرٌ مِّنْ أَنْ يَّمْتَلِئَ شِعْرًا )) [ مسلم، الشعر، باب في إنشاد الأشعار....:۲۲۵۷، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’(تم میں سے) کسی آدمی کا اندرون (سینہ، پیٹ) پیپ سے بھر جائے جو اسے گلا دے، تو وہ اس سے بہتر ہے کہ شعر سے بھرے۔‘‘ اندرون (سینہ، پیٹ) شعر سے بھرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے بجائے اشعار آدمی پر غالب ہوں۔ ورنہ اچھے اشعار یاد کرنے اور سننے سنانے میں کوئی حرج نہیں۔ عمرو بن شرید اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( هَلْ مَعَكَ مِنْ شِعْرِ أُمَيَّةَ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ شَيْءٌ ؟ قُلْتُ نَعَمْ، قَالَ هِيْهِ فَأَنْشَدْتُّهُ بَيْتًا، فَقَالَ هِيْهِ ثُمَّ أَنْشَدْتُّهُ بَيْتًا فَقَالَ هِيْهِ حَتّٰی أَنْشَدْتُّهُ مِائَةَ بَيْتٍ )) [مسلم، الشعر، باب في إنشاد الأشعار....:۲۲۵۵ ] ’’تمھیں امیہ بن صلت کے کچھ اشعار یاد ہیں؟‘‘ میں نے کہا : ’’جی ہاں!‘‘ آپ نے فرمایا : ’’سناؤ۔‘‘ میں نے ایک شعر سنایا، آپ نے فرمایا : ’’اور سناؤ۔‘‘ میں نے ایک شعر اور سنایا، آپ نے فرمایا : ’’اور سناؤ۔‘‘ حتیٰ کہ میں نے آپ کو سو شعر سنائے۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا : (( إِذَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ شَيْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ فَابْتَغُوْهُ فِي الشِّعْرِ فَإِنَّهُ دِيْوَانُ الْعَرَبِ )) [مستدرک حاکم :2؍499، ح : ۳۸۴۵، قال الحاکم صحیح و وافقہ الذھبي ]’’جب تم سے قرآن کی کوئی چیز مخفی رہے (کسی لفظ کا مطلب سمجھ میں نہ آئے) تو اسے شعر میں تلاش کرو، کیونکہ وہ عرب کا دیوان ہے (یعنی ان کے گزشتہ علوم کا مجموعہ ہے)۔‘‘ ابن حبان (۷۳۷۷) کے حاشیہ میں اس کے محقق نے یہ روایت بیہقی کی ’’الاسماء والصفات‘‘ کے حوالے سے نقل کر کے اس کی دو سندوں کو حسن کہا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا تفسیرِ قرآن میں اشعار عرب سے استشہاد معروف ہے۔