قَالَ هَٰذِهِ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ
صالح نے کہا، یہ اونٹنی ہے، اس کے پانی پینے کا ایک دن ہے اور تمہارے پینے کا بھی ایک دن مقرر ہے۔
1۔ قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ....: اللہ تعالیٰ نے اس اونٹنی کو ’’آيَةٌ بَيِّنَةٌ‘‘ اور ’’آيَةٌ مُبْصِرَةٌ‘‘ (واضح نشانی و معجزہ) قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۷۳)، ہود (۶۴) اور بنی اسرائیل (۵۹) اس سے معلوم ہوا کہ وہ عام قسم کی اونٹنی نہ تھی بلکہ اس کی پیدائش اور ظاہر ہونے میں ضرور کوئی ایسی بات تھی جس کی بنا پر اسے معجزہ قرار دیا گیا۔ ’’ الصحيح المسبور‘‘ میں ہے کہ ابن حبان نے صحیح سند کے ساتھ ابوطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے : ’’صالح علیہ السلام نے انھیں فرمایا، نکلو! تو وہ ایک چٹان کی طرف نکلے، وہ چٹان اس طرح لرزی جس طرح حاملہ اونٹنی کو درد زہ ہوتا ہے، پھر وہ پھٹی اور اس کے درمیان سے اونٹنی نکلی تو صالح علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيْبٌ ﴾ [ ہود : ۶۴ ] ’’یہ اللہ کی اونٹنی ہے، تمھارے لیے عظیم نشانی، پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ، ورنہ تمھیں ایک قریب عذاب پکڑ لے گا۔‘‘ اگرچہ اس روایت کی سند صحیح ہے مگر یہ صحابی کا قول ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’قوم کے بڑے بڑے سردار جمع ہوئے اور انھوں نے ایک چٹان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صالح علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ اس چٹان سے ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک پوری جسامت کی اونٹنی نکالو، جس کی یہ یہ صفات ہوں۔ صالح علیہ السلام نے ان سے پختہ عہد لیا کہ اگر ان کی فرمائش پوری کر دی جائے تو وہ ایمان لا کر ان کی پیروی اختیار کریں گے۔ جب انھوں نے قول دے دیا تو صالح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے لیے کھڑے ہوئے کہ ان کی فرمائش پوری کر دی جائے، چنانچہ وہ چٹان جس کی طرف انھوں نے اشارہ کیا تھا، یکایک پھٹی اور اس میں سے ان کی مطلوبہ صفات کی اونٹنی ظاہر ہوئی، اسے دیکھ کر کچھ لوگ ایمان لے آئے، لیکن اکثر اپنے کفر پر جمے رہے، اس پر صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيْبٌ ﴾ [ ھود : ۶۴ ] ’’یہ اللہ کی اونٹنی ہے، تمھارے لیے عظیم نشانی، پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ، ورنہ تمھیں ایک قریب عذاب پکڑ لے گا۔‘‘ مفسر مراغی لکھتے ہیں : ’’اس قسم کی روایات کو سچا ماننا ہم پر اسی وقت لازم ہے جب وہ صحیح خبروں سے ثابت ہوں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ یہ روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں، تاہم اس میں شک نہیں کہ وہ عام اونٹنی نہ تھی بلکہ معجزانہ شان رکھنے والی اونٹنی تھی۔ اس اونٹنی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک صحیح حدیث مسند احمد کے حوالے سے سورۂ اعراف (۷۳) میں گزر چکی ہے۔ 2۔ لَهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ : قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو صرف اتنا حکم نہ تھا کہ ہر دوسرے روز یہ اونٹنی تمھارے سارے علاقے کا پانی پیے گی، بلکہ یہ حکم بھی تھا کہ یہ تمھارے کھیتوں اور باغوں میں جہاں چاہے گی جائے گی اور جو چاہے گی کھائے گی، اسے کوئی نقصان نہ پہنچانا۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۷۳) اور ہود (۶۴)۔