أَتُتْرَكُونَ فِي مَا هَاهُنَا آمِنِينَ
کیا تم لوگ داد عیش دینے کے لیے یہاں کی نعمتوں میں امن و سکون (٣٩) کے ساتھ چھوڑ دیئے جاؤ گے
1۔ اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا هٰهُنَا اٰمِنِيْنَ....: قومِ عاد کی طرح یہ لوگ بھی اللہ کی عبادت سے کنارہ کش ہو چکے تھے، بتوں کے پجاری اور قیامت کے منکر تھے، جس کے نتیجے میں ان کی ساری تگ و دو دنیا کی آسائشوں کے حصول اور عیش پرستی تک محدود تھی، آخرت کی فکر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس سے یکسر عاری تھے، ان کے بدترین اور مفسد لوگ ان کے سردار اور راہ نما بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف صالح علیہ السلام کو بھیجا، جنھوں نے اوپر والی آیات کے مطابق انھیں اللہ سے ڈرنے اور اپنے رسول کی اطاعت کرنے کی تلقین فرمائی اور بتایا کہ وہ ان سے کسی بھی قسم کی مالی منفعت کے طلب گار نہیں ہیں۔ اس کے بعد انھیں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کر اور اس کے عذاب سے ڈرا کر نصیحت فرمائی۔ قومِ ثمود کی آبادی حجر کے علاقہ میں تھی، جو مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان واقع ہے اور آج کل اسے ’’مدائن صالح ‘‘ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کو جاتے ہوئے یہاں سے گزرے تھے، اس کی تفصیل سورۂ اعراف (۷۳) میں دیکھیے۔ یعنی یہاں دنیا کے اندر اپنے علاقے میں جو تم امن سے رہ رہے ہو، کسی دشمن کا خوف نہیں، ضرورت کی ہر چیز تمھیں میسر ہے اور راحت و آرام کے تمام اسباب بھی، تو کیا تمھیں ان باغوں چشموں، کھیتوں کے نرم و نازک خوشوں والے درختوں اور پہاڑوں کو تراش کر نہایت مہارت کے ساتھ بنائی پائیدار اور خوبصورت عمارتوں میں ہمیشہ رہنے دیا جائے گا؟ جب یہ طے شدہ ہے کہ ایسا نہیں ہو گا، بلکہ ہر حال میں تمھیں مالک کے سامنے پیش ہو کر جواب دہ ہونا ہے، تو اللہ سے ڈرو اور اس سوال کا جواب سوچ لو کہ اس کا دیا کھاتے ہو اور دوسرے کے گن گاتے ہو اور میری اطاعت کرو، کیونکہ اس نے مجھے تمھاری ہدایت کے لیے بھیجا ہے۔ 2۔ وَ تَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ....: عاد کے تمدن کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے، جب کہ ثمود کے تمدن کی سب سے نمایاں خصوصیت، جس کی بنا پر وہ مشہور تھے، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے۔ چنانچہ سورۂ فجر (۷) میں عاد کو ’’ ذَاتِ الْعِمَادِ‘‘ (ستونوں والے) کہا گیا ہے اور ثمود کے متعلق فرمایا : ﴿الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ﴾ [ الفجر : ۹ ] ’’جنھوں نے وادی میں چٹانوں کو تراشا۔‘‘ اس کے علاوہ وہ اپنے میدانی علاقوں میں بھی بڑے بڑے محل تعمیر کرتے تھے، فرمایا : ﴿ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا ﴾ [ الأعراف : ۷۴ ] ’’تم اس کے میدانوں میں محل بناتے ہو۔‘‘ ان تعمیرات سے ان کی غرض و غایت اپنی شان و شوکت، مہارت اور کمال فن کی نمائش تھی، نہ کہ کوئی حقیقی ضرورت۔ بگڑے ہوئے معاشروں کا یہی حال ہوتا ہے کہ ایک طرف لوگوں کو سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملتی تو دوسری طرف امراء اور اہلِ ثروت کمزوروں کی مدد کے بجائے اپنی ضرورت سے زیادہ عمارتیں بنانے کے بعد بلاضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں۔ تفہیم القرآن میں ہے : ’’ثمود کی ان عمارات میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں، جنھیں ۱۹۵۹ء کے دسمبر میں میں نے خود دیکھا ہے۔ یہ جگہ مدینہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام ’’العلاء‘‘ (جسے عہد نبوی میں وادی القریٰ کہا جاتا تھا) سے چند میل کے فاصلے پر بجانب شمال واقع ہے۔ آج بھی اس جگہ کو مقامی باشندے الحجر اور مدائن صالح کے ناموں ہی سے یاد کرتے ہیں۔ اس علاقے میں ’’العلاء‘‘ تو اب بھی نہایت سر سبز و شاداب وادی ہے، جس میں کثرت سے چشمے اور باغات ہیں، مگر ’’الحجر‘‘ کے گرد و پیش بڑی نحوست پائی جاتی ہے، آبادی برائے نام ہے، روئیدگی بہت کم ہے، چند کنویں ہیں، انھی میں سے ایک کنویں کے متعلق مقامی آبادی میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی اسی سے پانی پیتی تھی۔ اب وہ ترکی عہد کی ایک ویران چھوٹی سی چوکی کے اندر پایا جاتا ہے اور بالکل خشک پڑا ہے۔ اس علاقے میں جب ہم داخل ہوئے تو ’’العلاء‘‘ کے قریب پہنچتے ہی ہر طرف ایسے پہاڑ نظر آئے جو بالکل کھیل کھیل ہو گئے ہیں، صاف محسوس ہوتا تھا کہ کسی سخت ہولناک زلزلے نے انھیں سطح زمین سے چوٹی تک جھنجھوڑ کر قاش قاش کر رکھا ہے۔ اسی طرح کے پہاڑ ہمیں مشرق کی طرف ’’العلاء‘‘ سے خیبر جاتے ہوئے تقریباً پچاس (۵۰) میل تک اور شمال کی طرف ریاست اردن کے حدود میں ۳۰، ۴۰ میل کے اندر ملتے چلے گئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تین چار سو میل لمبا اور سو میل چوڑا ایک علاقہ تھا جسے ایک زلزلہ عظیم نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔‘‘