وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ
اور میرے باپ کو معاف کردے، بیشک وہ گمراہوں میں سے تھا۔
وَ اغْفِرْ لِاَبِيْ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيْنَ : ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے رخصت ہوتے وقت استغفار کی دعا کا وعدہ کیا تھا (مریم : ۴۷) چنانچہ انھوں نے یہ دعا فرمائی۔ زندگی میں دعا کا حاصل یہ ہے کہ اسے توبہ کی توفیق بخش، تاکہ اس کے گناہ معاف ہو جائیں اور وفات کے بعد ہو تو اس کے شرک اور دوسرے گناہ معاف کرنے کی دعا ہے، لیکن بعد میں جب انھیں معلوم ہوا کہ ایک مشرک اور دشمنِ حق کے لیے دعائے مغفرت کرنا صحیح نہیں ہے تو انھوں نے اس دعا سے رجوع کر لیا، جیسا کہ سورۂ توبہ میں ہے : ﴿ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ﴾ [ التوبۃ : ۱۱۴ ] ’’پھر جب اس کے لیے واضح ہو گیا کہ بے شک وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بے تعلق ہو گیا۔‘‘